میڈیا پر بلیک آوٹ کرکے دھرنا ختم کرنے کے لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں چمن دھرنا کمیٹی

چمن دھرنا کمیٹی کے عمائدین نے دھرنا اسلام آباد منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔سپین بولدک پاک افغان سرحد کی بندش کے خلاف دھرنا 7 ماہ سے جاری ہے۔صوبے میں سول حکومت نہ ہونے کے باعث ہمارے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

صدیوں سے یہ افراد ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے افراد بارڈر کے آر پار آسانی سے آتے جاتے تھے۔ عوام کو دیوار سے لگانے کی بجائے انکے دکھوں کا مداوا کیا جائے ،موجودہ جاری پالیسیوں سے ملک کے خلاف نفرت کے جذبات کو پیدا ہونے سے روکنا وقت کی ضرورت ہے اگرچمن کے لوگوں کی داد رسی نہ کی گئی تو ہزاروں افراد اسلام آباد کی طرف مارچ و دھرنا دینے پر مجبور ہونگے

دھرنا کمیٹی چمن کے قائدین کے نمائندہ وفد مولوی منان امیر جمعیت علمائے اسلام ضلع چمن ،صادق اچکزئی صدر انجمن تاجران ضلع چمن ،شیر علی اچکزئی سینئر نائب صدر پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، قاری امداد اللہ امیر جماعت اسلامی چمن، حافظ عبدالخالق سنی امیر سنی علماء کونسل، فیض محمد صدر محنت کش یونین چمن اورحاجی ولی محمد صدر ٹرانسپورٹ یونین چمن نے انجمن تاجران کے مرکزی صدر کاشف چوہدری کے ہمراہ اتوار کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس منعقد کی۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا چمن اور قندھار کے عوام ایک قوم ہیں جو 2 ممالک میں تقسیم ہیں ہیں۔ اور صدیوں سے قندھار اور چمن کے مشترکہ شہری ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سے تا حال دونوں علاقوں کے عوام بغیر ویزا دونوں ممالک میں آمد و رفت کا حق رکھتے تھےمگر نگران حکومت کے دور میں چمن اور قندھار کے عوام کی سرحد پار آمد و رفت بند کر دی گئی ہے۔جس کے نتیجے میں چمن کے 12 لاکھ عوام اپنے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔

چمن دھرنا کمیٹی کے عمائدین نے کہا ہم سرحد کی دونوں اطراف کڑی نگرانی کی حمایت کرتے ہیں۔تاہم چمن کے عوام کی رشتہ داریاں زمینیں اور املاک اور کاروبار قندھار میں ہیں۔جبکہ تقریبا تمام آبادی کا زریعہ روزگار سرحد پار آمد و رفت اور معمولی نوعیت کی مزدوری یا تجارت سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا ہم لوگ محب وطن ہیں اور حکومت و فوج کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہیں۔ مگر روز گار کی بندش کے نتیجے عوام اور نوجوان خودکشی کر رہے ہیں۔پاک فوج کے کور کمانڈر نے ہم سے ملاقات کر کے ہمارے مطالبات کو مبنی بر حق قرار دیا ہے۔اس کے باوجود کوئی حل نہیں نکالا گیا۔

مقررین نے کہا چمن میں نادرا اہلکار شاختی کارڈ جاری کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے سے زائد رشوت طلب کرتے ہیں۔ اور رقم نہ دینے پر شناختی کارڈ ملنانا ممکن ہے۔ایسے میں ہم پر پاسپورٹ بنانے کی شرط عائد کر دی گِئی ہے۔ایسے نظام میں پاسپورٹ بنانا ہمارے لیے کیسے ممکن ہو سکتا ہے.

گزشتہ سات ماہ سے چمن میں بارڈر کی بندش اور وہاں کے شہریوں کے معاشی قتل کے خلاف دھرنا دینے والے شہریوں اور تاجروں کی کمیٹی سے مذاکرات کے ذریعے چمن کے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرے، چمن بارڈر کی بندش سے علاقے کے لاکھوں لوگوں بے روزگار ہو چکے ہیں .

اسمگلنگ کی روک تھام کے نام پر بااثر مافیاز کو نوازنے اور غریب کا چولھا بند کرنے کی پالیسی کو تبدیل جائے، کچھ سال قبل حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک کے دیگر افراد چمن بارڈر سے پاسپورٹ اور ویزہ کے ذریعے سفر کریں گے البتہ چمن و قندھار کی مقامی آبادی ماضی کی طرح نادار و افغان شناختی کارڈ پر آر پار آتے جاتے رہیں گے.

تاہم چند ماہ سے تمام قسم کی آمدورفت بند کر دی گئی ہے جس سے بڑی تعداد میں مقامی آبادی بےروزگار ہو چکی، مقامی آبادی کو نادرا شناختی کارڈ پر آر پار جانے کی پرانی سہولت بحال کی جائے، چمن بارڈر سے کندھوں پر رکھ کر چھوٹا موٹا سامان لانے والے مقامی افراد کے چولھے بند ہونے سے بچائے جائیں، مال بردار ٹرکوں ،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور روزانہ سامان سے لدے ہزاروں ٹرکوں سے کسٹم اور قومی آمدن بڑھانے کا درست طریقہ کار بنایا جائے.

مرکزی انجمن تاجران کے صدر کاشف چوہدری نے کہا عوام کو دیوار سے لگانے کی بجائے انکے دکھوں کا مداوا کیا جائے ،موجودہ جاری پالیسیوں سے ملک کے خلاف نفرت کے جذبات کو پیدا ہونے سے روکنا وقت کی ضرورت ہے اگرچمن کے لوگوں کی داد رسی نہ کی گئی تو ہزاروں افراد اسلام آباد کی طرف مارچ و دھرنا دینے پر مجبور ہونگے

اپنا تبصرہ لکھیں