افغان عبوری حکومت واضح کرے پاکستان کے ساتھ ہے یا دہشت گرد ٹی ٹی پی کے ساتھ، کاکڑ

وزیراعظم پاکستان نے کہا ہےافغان حکام کی طرف سے دھمکی آمیز بیانات کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ معنی خیز ہے۔بدھ کے روز اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے کہا گذشتہ2 سالوں کے دوران دو ہزار 267 پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونریزی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں.جس کے ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر رہے ہیں۔افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا پاکستان میں خودکش حملوں میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے اس کے علاوہ 64 افغانی پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔یہ تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں اور فروری 2023 کے بعد سے تواتر کے ساتھ افغان عبوری حکومت کو احتجاجی مراسلوں میں افغانستان سے منسلک دہشت گرد حملوں کی مکمل آگاہی فراہم کی گئی۔اس سب کے باوجود پاکستان نے دنیا بھر میں افغانستان کی عبوری حکومت اور عوام کی حمایت جاری رکھی اور ملک میں افغان اشیا کی درآمد اور برآمد میں غیر معمولی مراعات دیتا رہا۔

مگربدقسمتی سے پاکستان کے صبر، مصالحت پسندی اور فراخ دلی کی قدر نہ کی گئی اور افغان عبوری حکومت نے وہاں سے اٹھنے والی پاکستان مخالف دہشت گردی کے خلاف کوئی خاطر خوا اقدامات نہیں کیے۔آخر کار فروری 2023 میں ایک دہشت گرد حملے میں 100 سے زیادہ معصوم افراد کی شہادت کے بعد وزیر داخلہ کی قیادت میں ایک اعلی سطح وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی تھے اس وفد نے افغان عبوری حکومت کو تحریک طالبان پاکستان یا پاکستان میں سے کسی ایک چننے کا دو ٹوک عندیہ دیا۔

​​​​​​​پاکستان کے نگران وزیراعظم نے بدھ کو نیوز کانفرنس میں بتایا کہ 2021 میں عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں ’دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات کے بعد پاکستان دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ معنی خیز ہے۔نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کی ممالک واپس بھیجنے کا پاکستان کو مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔اس ضمن میں چند افغان رہنماؤں کے غیر ضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات افسوس ناک ہیں۔افغان رہنماؤں کے بیانات کے فوراً بعد دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خدشات کی توثیق بھی کرتی ہے۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم نے کہا افغان عبوری حکومت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان دو ہمسایہ مگر خود مختار ممالک ہیں جن کے باہمی تعلقات کو رسمی طور پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ایسے ہی چلائے جانے چاہئیں جیسا کہ دنیا بھر میں دیگر خود مختار ممالک کے درمیان چلائے جاتے ہیں۔اگست 2021 میں کابل میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد اسلام آباد کو یہ قوی امید تھی کہ پاکستان مخالف گروہوں خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور ’ان کو افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جاۓ گی لیکن بدقسمتی سے عبوری افغان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔دو سال میں دو ہزار 267 معصوم پاکستانی شہریوں کی جانیں اس اندوہناک خونریزی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں جس کے ذمے دارتحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں جوافغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر ر ہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی جو پاکستان میں ’دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔پاکستان ایسے تمام پاکستانیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری صورت میں ہم عبوری افغان حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی سرکوبی کے لیے ہر ممکن اقدامات عمل میں لائے گی۔وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ خودکش حملوں میں ملوث افراد میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اب تک 64 افغان شہری انسداد دہشت گردی کی مہم میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں۔فروری 2023 سے تواتر کے ساتھ ہر پندرہ دن بعد پاکستان کی جانب سے افغان عبوری حکومت کو احتجاجی مراسلوں میں افغانستان سے منسلک دہشت گرد حملوں کی مکمل تفصیلات مہیا کی جارہی ہیں۔تاہم افغان عبوری حکومت نے افغانستان سے اٹھنے والی پاکستان مخالف دہشت گردی کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا فروری 2023 میں ایک دہشت گرد حملے میں 100 سے زائد معصوم افراد کی شہادت کے بعد (اس وقت کے پاکستانی) وزیر دفاع کی قیادت میں ایک اعلی سطح کے وفد نے افغانستان کا دورہ کیا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے۔ اس وفد نے افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان یا تحریک طالبان پاکستان میں سے ایک کو چننے کا دوٹوک عندیہ دیا۔انہوں نے بتایا پاکستان کو مطلوب سرکردہ ’دہشت گردوں‘ کی فہرست بھی افغان عبوری حکومت کے حوالے کی گئی لیکن ان کے بقول افغان عبوری حکومت کی بار بایقین دہانیوں کے باوجود ’پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے اس رویے اور عدم تعاون کے بعد اب پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کے حالیہ اقدامات نہ تو غیر متوقع اور نہ ہی حیران کن ہیں۔نگران وزیراعظم کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے میں ایک بڑا کردار غیر قانونی تارکین وطن کا ہے۔ ’اس لیے ریاست پاکستان نے ان افراد کو یکم نومبر سے واپس اپنے ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان میں بڑی تعداد میں غیر ملکی افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جن میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے ۔دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث اکثر افراد کا تعلق انھی غیر قانونی تارکین وطن سے ہے۔ایسے 14 لاکھ افغان جن کو عارضی قیام کے لیے ’پی او آر‘ کارڈز جاری کیے گئے ہیں کے علاوہ آٹھ لاکھ افغان شہری جن کو ’افغان سیٹزن کارڈز‘ کے تحٹ رجسٹرڈ کیا گیا ہے انہیں اس مرحلے پر کسی قسم کے دباؤ کے بغیر پاکستان میں رہنے اور کاروبار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ بے نامی املاک اور غیر قانونی سرمائے کا دہشت گردی اور جرائم سے گہرا رشتہ ہے ۔حالیہ مہم میں یہ بھی مدنظر رکھا جائے گا اور ان معاملات میں قانون کے مطابق کارروائی بھی کی جاۓ گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قوانین جو کہ باقی تمام ممالک کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی، آمد ورفت اور تجارت کا احاطہ کرتے ہیں افغانستان کے حوالے سے بھی یکساں نافذ کیے جائیں گے۔پاکستان افغانستان کی سہولت کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہے اور جاری رکھے گا۔اس حوالے سے ریاست پاکستان نے سمگلنگ کے انسداد کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں سے ایک منفی فہرست کا اجراء سے ملی فہرست میں وہ درآمدی اشیاء شامل کی گئی ہیں جن کی افغانستان میں طلب نہ ہونے کے برابرتھی اور جو سمگل ہوکر پاکستان میں غیر قانونی طور پر فروخت ہورہی تھیں

اپنا تبصرہ لکھیں