میاں دے نعرے

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ ہماری سلطنت میں سیاست دانوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑی ہوں اور بوقت ضرورت جان کی امان پانے کے لیے،یعنی علاج معالجے کے لیے ملک سے باہر آنا جانا پڑا ہو، یہ تو ہر دہائی کا قصہ ہے کہ ناجانے کب کون بارہواں کھلاڑی بن جائے اور کون اوپننگ کرنے کریز پر آپہنچے، اب یہ کسی کو معلوم نہیں کہ کریس پر آنے کے بعد شعیب اختر باؤلنگ کروائے گا یا بلاول بھٹی بس تمنا یہی ہے کہ تصویر کیمرے کے سامنے آئے اور دنیا کو پتا چلے کہ میں دوبارہ اوپننگ کرنے آگیا ہوں، ہم نے کئی بار بارہویں کھلاڑیوں کو اوپننگ پر آتے اور گولڈن ڈک ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے مگر یہ کریز کا نشا ہی کچھ ایسا ہے کہ ساری عمر کریز پر رہنے والا عمران خان بھی جب بارہواں کھلاڑی بنا تو پھر سے جی للچایا کہ یہ جو میاں نواز شریف اوپننگ کر رہا ہے اس کو نکالا جائے اور مجھے ایک بار پھر اوپننگ کروائی جائے، امپائر نے اپنی عادت سے مجبور نواز شریف کے بیٹنگ سٹائل سے بور ہوکر خان صاحب کی جارحانہ بلے بازی دیکھنے کے لیے میاں کو آؤٹ اور خان کو ان کردیا۔

خان کو کریز پر آتے ہی مائکل ہولڈنگ، میلکم مارشل اور کرٹلی ایمبروس کے دھوادھار باؤنسر جھیلنے پڑے، خان بھی اپنے زمانے کا جانا مانا بلے باز رہا تھا ضد پر اتر آیا کبھی سر پر گیند لگے کبھی چھاتی اور کبھی کندھے پر، نان سٹرائکر اینڈ پر کھڑا کھلاڑی بار بار ریٹائرڈ ہرٹ ہوجانے کو بولتا رہا، باہر بیٹھے کمنٹیٹرز کی بھی یہی رائے تھی، مگر خان صاحب سب کچھ بمشیت انصاف خندہ پیشانی سہتے رہے پر ہار نہ مانی، حکومت کا رن ریٹ کافی سلو رہا زیادہ سکور نہ بن سکے مگر خان صاحب ڈٹے رہے آخر کار نئے زمانے کے نئے فینز نے خان صاحب کی سست رفتار اننگز سے اکھتاتے ہوئے پچ کو کھودنے کا فیصلہ کیا اور آخری اننگز سے پہلے پچ کو اکھاڑ کر رولا ہی مکا دیا۔

اب عمران احمد خان نیازی دوبارہ بارہواں کھلاڑی ہے اور میاں محمد نواز شریف جو خان کی پر زور فرمائش پر نکالے گئے تھے، تحریک انصاف نے ان کے بیٹنگ سٹائل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا خان تجربہ کار ہے اور اپنے جارحانہ بیٹنگ سٹائل سے تیز رن بنا کر ملک کو ترقی دلا سکتا ہے مگر خان کو معلوم نہ تھا کہ یہ باؤلنگ پچ ہے یہاں سر ویوین رچرڈز اور سچن ٹنڈولکر بھی نہیں چل سکتے۔۔۔

مگر خان کے جانے بعد جو کھیل میں تعطل آیا ہے، اس پر تماشائیوں کی ٹکٹیں تو واپس نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی براڈکاسٹر کے پیسے واپس دیے جاسکتے ہیں اب کی بار امپائر نے براڈکاسٹر سے بھاری بھرکم معاہدہ کیا ہے اور 21 تاریخ کو میاں دے نعرے کے نام کی پکچر بڑے پردے پر آویزاں کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے جس میں ہمیں مرکزی کردار میاں محمد نواز شریف ادا کرتے ہوئے نظر آئیں گے اور پکچر کے پریمیئر پر پتہ چلے گا کہ اگلے میچ میں میاں نواز شریف اوپننگ کریں گے یا مریم اپنے چچا شہباز شریف کے ساتھ میدان میں چاک وچوبند ہوکر کریز پر بلے بازی کریں گی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب کو پہلے گیند بازی دی جائے یا وہ خود گیند بازی کرنا چاہیں تاکہ پچ بھی ریڈ ہو جائے اور پچ پر پیس اور سیم کا بھی پتہ چل جائے تاکہ چیز کرنے میں آسانی ہو۔ پاکستانی گراؤنڈز کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں چیز کرنا آسان ہے جبکہ ٹارگٹ دینا کافی کٹھن ہے کیونکہ یہاں کی پچز ابنارمل بیہیو کرتی ہیں۔

یہ اوپر بیان کردہ منظر کشی مزاح ہر گز نہیں ہے مگر خاکم بدہن ہمارا نظام کسی کھیل اور اس کی اصطلاحات سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے، نصیب دشمناں یہ کھیل اگر صرف کرکٹ کا کھیل ہوتا جس طرح بیان کیا گیا ہے تو کوئی بات نہ تھی، ہم یہ سوچ کر بات درخور اعتنا نہ کر تے کہ ابھی کھلاڑیوں کا بچپنا نہیں گیا اور بزرگوں کی صورت میں لان کے پاس میں بیٹھے کرسی ڈالے دھوپ سیکھتے دادا ابو امپائر ہیں اور سب بچوں کو خوش رکھنے کے لیے باریاں دے رہے ہیں۔۔۔۔مگر نہیں یہ تو تخت سلطنت کا گھناؤنا کھیل ہے جس میں نظام مملکت تباہ ہوتا ہے تو ہو، لوگ بھوکے مرتے ہیں تو مریں، ہم عالمی دنیا میں رسوا و تنہا ہوتے ہیں تو ہوں مگر کھیل اور کھلاڑی اصولوں پر نہ کھیلیں گے اور ہماری تماشائیوں کو بھی اب کھیل کی اصل کا مزہ لینا ہوگا یہ نہیں پہلی دو اننگز سلو ہوگئی تو پچ ہی اکھاڑ دی، کھیل کا تو مزہ ہی نتیجہ دیکھنے میں ہے اور ہم نے آج تک کسی بلے باز کو پوری باری لینے ہی نہیں دی، ہر بار ہم اس پر ریفری کی جانب سے پابندی لگوانے کا سوچتے رہتے ہیں کبھی کسی کھلاڑی یا تماشائی کو اکسا کر اس پر حملہ کروا دیتے ہیں تاکہ کھلاڑی کی باری ویسے ہی ختم ہوجائے۔

میاں صاحب نے اس سے پہلے بھی مشرف بابا کے دور میں جلا وطنی کاٹ رکھی ہے اور اب کی بار وہ خود ساختہ جلا وطنی گزارنے کے بعد امپائر کا اشارہ ملتے ہی 21 اکتوبر کو لاہور میں اتر رہے ہیں جہاں ان کی پرانی فلم کا سیکول رلیز کیا جانا ہے،یہاں اسلام آباد سے بھی سرکاری عہدے داران کو یہ ڈائریکشن مل چکی ہے کہ کس نے کتنے بندے ساتھ لے کر جانے ہیں۔ سب چھوڑیے یہ بات دل کو چاک کر دیتی ہے کہ ان سیاست دانوں کو امپائر سے اتنی امید کیوں رہتی ہے کہ ہر بار اس کے بلانے پر دوسرے کو گرانے پر ریڈی رہتے ہیں جیسے کسی بچے کو پارک جانے کا بولا جائے تو وہ سب سے پہلے تیار نظر آتا ہے۔

اب نہ جانے خلقت، مگر کوئی جانے تو خدا جانے ہے کہ میاں صاحب کس مقصد اور کس ڈیل کے تحت وطن واپس لوٹ رہے ہیں چلیں اچھا ہے کہ اس ملک کا بیٹا لوٹ رہا ہے اسے ملک سے باہر یوں رسوا نہیں ہونا چاہیے، چاہے کوئی بھی ہو اسی اپنے ملک میں جب چاہے آنے کی مکمل آزادی ہونا چاہیے، مگر یہ طریقہ کار بہت غلط ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کے عینک کے نمبر بہت جلد بدل جاتے ہیں دور کی نظر خراب والا، منظر قریب کا محتاج ہوجاتا ہے اور اپنا سارا بیانیہ بدل لیتا ہے۔
اک حسین سفر میاں صاحب کا ختم ہوا ہے تو دوسرا شروع ہوچکا ہے، جیسے منیر نیازی کا شعر ہے

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

نیازی صاحب سے یاد آیا عابدہ حسین اپنی کتاب پاور فیلیر میں لکھتی ہیں کہ جب نواز شریف کی حکومت گری تو میں افسوس کرنے یا اظہار یک جہتی کرنے جاتی امرا گئی اور میں نے کہا

کجھ انج وی راہواں اوکیھیاں سڑ
کجھ گل ویچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی

میاں صاحب نے داد دی اور کہا تواڈا ہے،لکھتی ہیں میں نے کہا نہیں منیر نیازی دا ہے تو کہنے لگے کون منیر نیازی۔۔۔

بحر حال میاں صاحب کی آمد ٹھیک ایک بار اسی طرح ہے جس طرح اس ظالم سامراج میں پہلے حکمران لائے جاتے رہے ہیں اور خان صاحب کا وقتی زوال بھی تب تک ہے جب تک میاں صاحب کا ستارہ چمکتا رہے گا جیسے ہی منظر بدلے گا مقام بدل جائیں گے کہانی کا تصور اور مقصد وہی رہے گا۔

اس امید کے ساتھ کہ میاں نواز شریف کی 21 تاریخ کو رلیز ہونے والی فلم میاں دے نعرے کامیاب ہو، کیونکہ وہ اس ملک کا اثاثہ ہیں اور اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر انہوں نے اس ملک کو اندھیروں سے باہر نکالنا ہے۔

21 اکتوبر کو ہرگز دیکھنا نہ بھولیے بنے گا نیا پاکستان سے میاں دے نعرے تک کا حسین سفر…


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں