سیاسی عدم برداشت سے آگے…

سیاست نام ہی عوام اور ان سے جڑے معاملات کا ہے،ایک سیاست دان اپنی ساری توانائیاں صرف کرتا ہے تاکہ وہ عوام کے دل میں گھر کر سکے اور ان سے خدمت کا موقع طلب کر کے، ان سے ووٹوں کی محبت مانگ سکے جو ووٹ اسے ایوانوں کی بلد ترین کرسیوں تک لے جاسکتے ہیں مگر ایسا کرنے کے لیے اسے لذیذ لچھے دار تقاریر اور جھوٹے وعدے بھی کرنا ہوتے ہیں کیونکہ سیاست میں زور بازو سے کام نہیں لیا جاسکتا عوام کی امنگوں کی پاسداری کرنا ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کے ایون شیرمادر تو ہیں نہیں کہ جب چاہا پالیا اس کے لیے عوام سے رابطہ اور خدمت اور اپنائیت کا احساس پیدا کرنا ہوتا ہے۔

سیاست اور آمریت/بادشاہت میں یہی فرق ہے کہ سیاست میں ووٹوں کا کشکول ساری عمر ڈھونا پڑتا ہے کبھی وعدوں سے، کبھی ٹیلی ویثرن پر بحث مباحثوں سے اور کبھی شادی بیاہ، قل خانیوں اور جنازوں کے روابط سے کیونکہ سیاست دان اپنی طاقت/دھونس عوام پر ووٹ لینے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا بلکہ اس کی واحد طاقت ہوتی ہی عوام ہیں۔ سیاست دان کی تمام عمر کی مشق اسے صرف مفاہمت اور بات چیت کے ذرائع سکھاتی ہے جبکہ دوسری طرف بادشاہت/آمریت میں نہ تو لچھے دار تقاریر ہوتی ہیں نہ بات چیت ہوتی ہے اور نہ عوامی خدمت کے دعوے ہوتے ہیں اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف اقتدار اور اس کا نہ ختم ہونے والا نشہ ہوتا ہے۔

گویا سیاست دان تشدد اور دھونس سے دور ہوتا ہے اور آمر/بادشاہ اس کے قریب، سیاست دان عوامی ردعمل کی پرواہ کرتا ہے کیونکہ اسے دوبارہ ایوانوں اور ان سے ملحقہ محلوں میں آنے کے لیے عوامی طاقت کی محتاجی رہتی ہے اس لیے وہ قدم پھونک پھونک کر مفاہمت اور ڈائلاگ سے چلتا ہے برداشت کا پیکر بن کر دکھاتا ہے جبکہ آمر/بادشاہ ان تمام جھنجھٹوں سے مبراء ہوتا ہے کیونکہ اسے تخت پر جانے کے لیے عوامی طاقت کی نہیں بلکہ کسی اور طاقت کی آشیرباد چاہیے ہوتی ہے۔

یہ تمہید اس بات کی عکاس ہے کہ دونوں اطراف کے رویوں میں کتنا فرق ہوتا ہے سیاست دان تنقید سننے کا عادی ہوتا ہے غلطیاں تسلیم کر کے اس کو درست سمت میں لانے کو تیار رہتا ہے، اگر عمل نہ بھی کرے تو ووٹر سے معافی مانگ کر بات بند کمروں میں ٹال کر آگے چلتا ہے چاہے عمل پیرا ہو یا نہ ہو۔

مگر افسوس ہے، قحط الرجالی ہے کہ اب ہمارے سیاست دانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ایک دوسرے کی تنقید سننے کا حوصلہ تک نہیں رہا پہلے یہ ہوتا تھا کہ تنقید پر تلخی آیا کرتی تھی ٹاک شو چھوڑ دیے جاتے تھے مگر اب کی بار بات لایعنی لغو لغت کے استعمال سے کوسوں دور بڑھ گئی ہے اب بات سلطانی دنگل تک جا پہنچی ہے پہلے پہل اس قسم کے واقعات کے رونما ہوجانے کے بعد لوگ شرمندہ رہتے تھے کہتے تھے جو ہوا اسے ہونا نہیں چاہیے تھا مگر اب کی بار مباحثہ اس بات پر ہے کہ کس نے کس کو پچھاڑا کون بازی لے گیا ایک فریق کہتا ہے میں نے مارا دوسرا کہتا ہے میں نے پیٹا!!! یہ بات اس قدر دل شکن ہے کہ ہمارے نمائندے کس طرف جارہے ہیں اور عوام ان سے اب بھی خیر کی توقع لگائے بیٹھے ہیں یہ تو شاید بہادر شاہ کے پنگھوڑے کا خواب ہے جو حقیقی دنیا سے اور زیست انسانی کے تلخ لہجوں سے اتنا ہی دور ہے کہ جتنا بحیرہ عرب کنیا کماری سے۔

ایک وقت تھا کہ بادشاہ کے پجاری شخصیت پرستی میں اتنا آگے نکل جایا کرتے تھے کہ کسی کی شہر سلطنت میں مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ عالی وقار کے بارے میں کچھ بول سکیں سب ساقط رہا کرتے تھے، اسی پر ایک قطعہ ہے کہا:

لگا کر آگ شہرکو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور کا شوق سلامت رہے، شہر اور بہت

مگر یہ جلاؤ گھراؤ کی تند و تیز باتیں اور رویے سیاست دانوں کے نہ ہوا کرتے تھے یہ بادشاہوں کی میراث ہوا کرتے تھے، انہی رویوں کی نفرت نے ہی تو سیات کو پروان چڑہایا تھا جمہوریت کا دنیا بھر میں بول بالا کروایا تھا، مگر آج پھر ہم سیاست کے چلن میں سیاست کی قبا میں ایک بید کی لاٹھی اٹھائے سر پر تاج امنگ باندھے، کوئی اپنی میراث کو ٹٹولتا ہوا طاقت کے دروازے چاہتا ہے مگر سیاست دان ہے یا کوئی آمر/بادشاہ معمہ ہی معمہ ہے۔

ہم نے اپنی ملکی سیاست میں کئی بار دیکھا ہے کہ جب بڑے بڑے مخالفین ایک ساتھ میز پر بیٹھ جایا کرتے تھے افہام و تفہیم کی بات کرتے تھے نظام کو رواں رکھنے کی تمنا رکھتے تھے ہم نے مولانا مودودی کو فاطمہ جناح کے ساتھ دیکھا، ہم نے باچا خان کو مودودی صاحب کے ساتھ دیکھا،ہم نے فیض کو مودودی صاحب کے ساتھ دیکھا دوسری طرف ہم نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب کو ایک ہی میز پر بڑے بڑے مخالفین کو بیٹھاتے دیکھا اس کے بعد ہم نے برطانیہ میں مرحوم بی بی اور نواز شریف کو ایک ساتھ بیٹھے بات کرتے دیکھا یہیں تک نہیں بلکہ ہم نے میاں صاحب کو بنی گالہ میں عمران خان کے ساتھ محو جلوس دیکھا مگر اب تو نہ ایسا منظر دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کوئی نواب صاحب جیسی شخصیت نظر آتی ہے کہ جو کھلی ہوئی میانوں کو بند کروا کر ایک ساتھ بٹھا سکے۔ یہ تو ایسا لگتا ہے اپنی جاگیر کے واسطے لڑتے پھرتے ہیں کوئی انہیں اطلاع دے کہ آپ سیاست دان ہیں عوام سے رجوع کریں وہ آپ کو طاقت دیں گے،آپ ان سے بات چیت کریں ان کی تنقید برداشت کریں نہ کہ کسی بادشاہ کی طرح اسلام آباد کو اپنے باپ دادا کی کھوئی ہوئی میراث سمجھ کر گھوڑے دوڑائیں۔

اب سیاسی اکابرین یا صف اول کی لیڈرشب کسی مندر میں پڑی ہوئی مورت کی ماند ہوگئی ہے جن کے خلاف کوئی بات نہیں کی جاسکتی مگر بڑے بڑے مفکرین کے مطابق شخصیت پرستی بت پرستی سے بھی بری چیز ہے، بت تو ساقط ہے کوئی غلطی کوتاہی نہیں برت سکتا مگر دوسری طرف انسان کوتاہی کرتا بھی ہے چلیں آپ اپنے عشق کے ہاتھوں مجبور کچھ نہ کہیں دوسروں کو تو کہنے دیں ہاں ان کی تنقید کا جواب دیں مگر مدبر اور شائستہ انداز میں نہ کہ گالم گلوچ سے آگلے بڑھتے ہوئے ہاتھا پائے کر کے سلور بیلٹ جیتنے کا دعویٰ کریں۔

یہ طور طریقے غیر سیاسی، غیر جمہوری، غیر پارلیمانی اور سب سے بڑھ کر غیر مہذب ہیں انسان تو اشرف المخلوقات ہے تو اسے اپنے وقار اور انسانی سالکھ اور معاشرتی اصولی کو مدنظر رکھ کر کام کرنا چاہیے تاکہ دھبہ کسی خاص پیشے پر نہ آئے، بات انسانی رویوں کی ہوتی ہے مگر ایک کالی بھیڑ اپنی حرکتوں اور رنگ سے سب پر اپنا رنگ چھوڑتی ہے کامیاب کہاں تک ہوتی ہے اس پر بات ہوسکتی ہے! یہ ہر فرد پر افراط و تفریط کے مجوزہ اصولوں کے مطابق جانچا جاسکتا ہے مگر اس سے نقصان یہ ہوتا ہے ایک مخصوص پیشے پر داغِ سرکشی معلق و مقفل ہوجاتا ہے۔

اس امید و تمنا کے ساتھ ہمارے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور عائلی رویے بہتر ہو دعا ہے کہ ہم راہ زیست میں راہ انسانیت کا ملاپ کر کے چلیں خالی ہاتھ مرنا تو احسن و مجبوری ہے مگر خالی ہاتھ بغیر زاد راہ کے سفر کرنا سنت کے بھی خلاف ہے۔


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں