تحریر: عفت روف
اسلامی جمہوریہ پاکستان چاروں جانب سے نشانے پر رہنے والی فاختہ ہے جس کی دھاک میں بیٹھے شکاری کسی کمزور لمحے کے تعاقب میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں ہمسایہ ملک بھارت بلاحیل و حجت اس کار خیر میں سرفہرست ہے،موضوع کی جانب آنے سے قبل ذرا برصغیر کی تہذیب وثقافت اور خواتین کے مقام کا جائزہ لیتے ہیں مغلیہ سلطنت کے قیام سے قبل ہندو راج کے زیر تسلط مندروں میں گانے بجانے اور محافل رقص کا عام رحجان تھا خواتین بےوقعت،بے پردہ اور محض آقاؤں کےدل لبھانے کا سامان تھیں لیکن مغلیہ سلطنت نے علم و فن،تہذیب وثقافت، زبان و ادب میں قابل رشک تاریخ رقم کی اور اقوام عالم میں اپنے مخفی جواہر کا پرچار کر کے نیک نامی کمائی یہاں بلا تخصیص مرد و زن لوگوں کو موسیقی اور رقص کی تربیت دی جاتی تھی،1857 کے بعد انگریز راج کے دوران مشرقی ثقافت پر چھری پھیرتے ہوئے مغربی اطوار مسلط کیے گئے اور ثقافتی مراکز جسم فروشی کے اڈوں میں تبدیل ہو گئےذہنی و جسمانی تحفظ سے بے بہرہ یہ خواتین محض حکمرانوں کی تعیش کا سامان ہوا کرتی تھیں مغلیہ حکمران چوں کہ بنیادی طور پر وسط ایشیا سے ہجرت کر کے آئے تھے لہٰذا وہاں کی باوقار ثقافت برائے رقص و موسیقی کو برصغیر میں بھی رواں رکھا جہاں ثقافت جنس پرستی سے یکسر مختلف محض ذہنی تفریح کا سامان ہے جس کی چشم دید گواہ راقمہ خود ہے
،برصغیر میں مغلیہ دور کے رائج ثقافتی مراکز انگریز دور کے جنس پرست مقامات میں بدلے تو مشرقی تہذیب کا گلہ گھونٹ دیا گیا، سب سے بڑے ثقافتی مراکز میں سے ایک موجودہ پاکستان کے علاقے لاہور میں قائم تھا جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کابینہ کے جنرل ہیرا سنگھ ڈوگر نے بطور وزیر اعظم حکمرانی کی اسی نسبت سے یہ علاقہ آج بھی “ہیرا منڈی ” کے نام سے مشہور ہے، اس مقام پر اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں،صداکاروں کے علاوہ علمی و سماجی شخصیات، علامہ محمد اقبال، مولانا الطاف حسین حالی اور سر گنگا رام(فادر آف لاہور) رہائش پذیر رہے لیکن جسم فروشی کے مکروہ دھندے نے اس علاقے کو رسوائے زمانہ بنا کے رکھ دیا اور اسے جسم فروشی کی ہیرا منڈی کہا جانے لگا
انگریزاور ہندو کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں مسلم کش سرگرمیوں نے مشرقی ثقافت کو مغلوب کیا اور یہ علاقے جسم فروشی کے مراکز بنا کر اقوام عالم میں تاریخی حقائق سے چشم پوشی اختیار کی گئی متنازعہ فکری و لسانی،مذہبی و معاشرتی رحجانات نے دو الگ ملک بنانے کی تحریک کو فروغ دیا ، یوں بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آئے پاکستان سیاسی و معاشی عدم استحکام، بیرونی حملوں، جنگوں اور ملحقہ علاقوں کے تنازعات کے باعث ہمیشہ نشانے پر رہا ،ہیرا منڈی کی جسم فروشی جاری رہی جسے جنرل ضیاالحق نے ختم کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن یہاں کے مکین اپنی فطری غلاظتوں کے ساتھ پنجاب بھر میں درون خانہ جسم فروشی کرنے سے باز نہ آئے، جنرل ہیرا سنگھ کا علاقہ ان کے نام کی جگہ جسم بیچنے والے ہیروں سے پہچانا جانے لگا
بھارت کے فلم ساز سنجے نیلا بھنسالی کو لکھاری میر عثمان نے سالہا سال کی تحقیق کےبعد ایک سکرپٹ مہیا کیا جس پر ویب سیریز کی فلم “ہیرا منڈی دی ڈائمنڈ “منظر عام پر آئی جو پاکستانی تاریخ وثقافت کے اصل حقائق کو مسخ کرتی ہے یہ عمل عالمگیرسطح پر پاکستان کی شہرت داغنےکا مذموم عزم ہے،فلم کے مصنف میر عثمان ،علامہ اقبال کے نواسے۔یوسف صلاح الدین کے مطابق ان کے ایک دوست کے پاس آئے جہاں نجانے کیا معلومات ملیں کہ غیر مصدقہ حقیقت کو عملی جامہ پہنا کر پاکستان کی شہرت کو دھچکا لگایا گیا فلم کے مطابق یہ دور قیام پاکستان سے قبل ،مسلم سلطنت کے زوال کے بعد کا تھا ،تمام طوائفوں کا تعلق پاکستان سے تھا اور وہ مسلمان تہذیب کی ترجمان بتائی گئیں بھاری بھرکم قیمتی لباس،پر تعیش محلات اور کم عمر لڑکیوں کا جنسی استحصال،،فلم کے لوازمات میں شامل تھا فلم کی کاسٹ میں پاکستانی اداکار عمران عباس اور فواد خان کے انکار کے بعد بھارتی اداکاروں کو منتخب کیا گیا،واجبی شکل وصورت کی ہیروئین (سنجے بھنسالی کی حقیقی بھانجی)،پاکستان کی معاشرت میں صرف جنس بیوپاری کے طور پر سامنے لائی گئی لاہور کی جگہ لکھنوی تہذیب دکھائی گئی،اگر یہ تخیلاتی سکرپٹ تھا تو اس کا خیال پاکستان کے لیے ہی کیوں ذہن میں آیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال یا خود بھارت کے جسم فروشوں پر فلم کیوں نہ بنائی گئی،مزید یہ کہ فہم و فراست سے مالا مال اندھا دھند تقلید کرنے والے ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا ستاروں نے فلم کے مکالموں پر خوب ویڈیوز بنا بنا کر بھارت کے ہم پلہ ہو کے پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا ،حکومت کو بروقت اس کا تدارک کرنا ہو گا اور اس سازش کا منہ توڑ جواب بھی دینا ہو گا
بھارت کی یاد دہانی کے لیے کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ کوئی سنجے نیلا بھنسالی اس کے مطابق فلم بنا کر بھارت کا مکروہ جنسی کاروبار بھی بےنقاب کرے تاکہ لاکھوں ویوز اور کروڑوں کا زرمبادلہ کمایا جا سکے،
ایشیا کی سب سے بڑی جنس فروش منڈی میں اٹھارہ ہزار طوائفیں محو رقص ہیں جو ڈیڑھ سو روپے یا ایک روٹی کے عوض جسمانی لذت بیچ سکتی ہیں انھی کے لیے ساحر لدھیانوی نے نظم کہی تھی؛
یہ دنیا دورنگی ہے۔۔۔۔ایک طرف ریشم اوڑھے۔۔۔۔ایک طرف سے ننگی ہے۔۔۔۔۔ایک طرف سے اندھی ہے۔۔۔دولت کی پاگل عیش پرستی۔۔۔۔۔ایک طرف جسموں کی قیمت روٹی سے بھی سستی ہے۔۔۔ایک طرف ہے سونا گاچی،ایک طرف چورنگی ہے۔۔۔۔یہ دنیا دورنگی ہے۔۔۔۔۔
جی ہاں سونا گاچی بھارت میں واقع ہے،اس سے ملحقہ علاقوں میں کالی گھاٹ،گریا،بو بازار،میں لگ بھگ پچاس ہزار طوائفیں ہیں 3۔287 ملین کلومیٹر پر پھیلے بھارت میں بیس لاکھ جسم فروش خواتین ہیں سوناگاچی کے علاوہ ممبئی،دلی،کلکتہ، پیون،ناگ پور میں بھی یہی رواج ہے،جس کا زرمبادلہ ملٹی بلین ڈالرز تک ہے،غیر ممالک آذربائیجان، ازبکستان، روس،فلپائن، جاپان،بنگلہ دیش،سری لنکا،تھائی لینڈ، افغانستان اور عرب ممالک سے ان مکروہ کاموں کے لیے لڑکیاں سمگل کی جاتی ہیں 2015 میں بھارت سے تھائی خاتون اور امریکا سے بھارتی فلم ساز معہ پانچ اداکاراوں کی گرفتاری کی وجوہات میں جسم فروشی کے اڈے چلانا تھا سونے پر سہاگہ ہم جنس پرستی کے بھی اجازت دے دی گئی ہے بھارتی سپریم کورٹ نے جسم فروشی کو باقاعدہ ایک شعبہ قرار دے رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر لوکل پورن فلموں کی نمائش، کم عمری کے اسقاط حمل،خواتین کی شرح اموات میں اضافہ، ایڈز کا موذی مرض،جنسی خطرناک بیماریاں اور اخلاقی تباہ کاریاں بام عروج پر ہیں،
عالمی منڈیوں میں بھارتی تاجروں کی مقبول عام صنعت “جنس” ہے تحریر میں فراہم کردہ سیر حاصل معلومات پر مبنی ایک بڑی سکرین کی فلم بنائی جا سکتی ہے حکومت پاکستان اس سیریز پر پابندی لگائے,دفتر خارجہ بھارتی سفیر کو طلب کر کے نوٹس دے،بھارت نواز افراد پر کڑی نظر رکھی جائے اور ہندی زبان اور بھارتی ایجنڈے پر عمل پیرا ملک دشمن جو عوام کو گمراہ کرنے پر مامور ہیں انھیں سزائیں دی جائیں امید ہے بھارت پاکستان پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانکے گا
جو دوسروں پہ لگاتے ہیں مفت کے الزام
کریں جو غور تو اپنا قصور نکلے گا
بہت خوب صورت تحریر ہے عفت صاحبہ نے زبردست تجزیہ کیا ہے جو لائق تحسین ہے