یونیورسٹی اراضی کا انقلابی استعمال اور تجارتی شراکت یونیورسٹی کے لیے بہتر آمدنی مہیا کر سکتا ہے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نامی مقامی تھنک ٹینک نے ایک تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا ہے۔ ندیم الحق ،ایم جہانگیر خان اور ارم ندیم کا تصنیف کردہ یہ مطالعہ یونیورسٹیوں کی زمینوں کے روایتی استعمال کے تنقیدی تجزیہ پر مبنی ہے۔جو بنیادی طور پر تعلیمی اداروں کے اندر رہائش کے لیے مختص کی۔
تحقیقی رپورٹ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس کے ذریعے تجارتی کوششوں کے لیے ان اثاثوں کو مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔جس کا مقصد مقامی معیشتوں اور سماجی بہبود کو بڑھاتے ہوئے یونیورسٹیوں کی آمدنی کے سلسلے کو بڑھانا ہے۔
پی آئی ڈی ای، اسلام آباد کے کے ترجمان کے مطابق مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر یونیورسٹیاں اپنے روایتی کرداروں سے نکل کر عصری، کاروباری بنیادوں پر تعلیم اور تحقیق کے مراکز بن چکی ہیں۔ زیادہ خود مختاری اور مالی آزادی سے کام کررہی ہیں۔ یہ تبدیلی اس وقت آئی ہے جب اعلیٰ تعلیم کو ترقی اور پائیداری کے دوہرے چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ بجٹ کی کمی اور سماجی حمایت میں کمی ہے۔ اس کے جواب میں، ادارے تیزی سے کاروباری انداز اپنا رہے ہیں۔جن میں خود کو فروغ دینا، شراکت داری قائم کرنا، اور تکنیکی اختراعات کو اپنانا شامل ہیں۔تاکہ حصول علم کے لیے دستیاب معیشت میں ترقی کی جاسکے اور خود کو ملکی اور بین الاقوامی دونوں میدانوں میں مسابقتی اداروں کے طور پر ہم آہنگ کیا جا سکے۔
پاکستان میں، یونیورسٹیاں اسی طرح کے مالی مسائل کا سامنا کرتی ہیں اور وسائل کی تقسیم پر بحث کرتی ہیں۔خاص طور پر کیمپس کی زمینوں پر ہاؤسنگ کالونیوں کی تعمیر سے متعلق۔مطالعہ میں قیمتی اثاثوں کو ضائع کرنے کے پر تنقید کی گئی ہے۔اور اداروں کی مالیاتی عملداری کو بڑھانے اور اپنے تعلیمی مقصد کو زیادہ مؤثر طریقے سے پورا کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ اثاثوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مطالعہ کے نتائج کا مرکز عالمی سطح پر معروف یونیورسٹیوں جیسے ہارورڈ، پرنسٹن، اور ییل، اور پاکستان میں ان کی ہم عصر ادرووں میں جاری کی حکمت عملیوں کے درمیان ایک تفصیلی موازنہ ہے۔یہ موازنہ ان بین الاقوامی اداروں کی طرف سے اپنائے گئے کامیاب مالیاتی ماڈلز پر روشنی ڈالتا ہے۔جو ان کے کیمپسز میں تجارتی منصوبوں میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری سے پیدا ہوتا ہے- بلکہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے لیے اس طرح کی کامیابیوں کو نقل کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
رپورٹ میں یونیورسٹیوں کی زمینوں پر رہائشی کالونیوں کی دیکھ بھال کے لیے درکار اخراجات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔جو اسلام آباد، لاہور، اور پشاور سمیت بڑے شہروں میں قیمتی املاک کی تفصیلات پر مبنی ہے۔ان مشاہدات کے نتیجے میں تھنک ٹینک نے پالیسی اصلاحات کا ایک سلسلہ پیش کیا ہے۔جس کا مقصد یونیورسٹی کی زمینوں کے استعمال کا از سر نو جائزہ لینا ہے۔ ان میں اہم تجویز یہ ہے کہ فیکلٹی اور عملے کے لیے رہائشی مراعات کو منیٹائز کیا جائے۔ یونیورسٹی کی ملکیتی جائیدادوں کے لیے مارکیٹ ریٹ کرائے متعارف کرائے جائیں۔ جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر آمدنی کا ایک نیا سلسلہ پیدا ہو گا۔
مطالعہ میں یونیورسٹیوں کے لیےبلند و بالا رہائشی اور تجارتی عمارات کی تعمیر کی تجویز دی گئی ہے۔یہ اقدام زمین کے استعمال کو بہتر بنانے اور آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے مواقع فراہم کرے گا۔اس طرح کے منصوبوں کو قابل عمل بنانے کے لیے نجی اداروں کے ساتھ شراکت داری قائم کی جا سکتی ہے۔جس میں منافع کی تقسیم کے اور ملکیت کے ڈھانچے سے متعلق معائدے ترتیب دیئے جا سکتے ہیں۔
خاص طور پر اس بات کو یقینی بنانا کہ یونیورسٹیاں طویل مدت تک زمین کی ملکیت کو برقرار رکھیں۔زمین کے استعمال کی اس انقلابی حکمت عملیوں کو اپناتے ہوئے پاکستانی یونیورسٹیاں مالی آزادی کے حدف کو حاصل کر سکتی ہیں۔جس کے نتیجے می حکومتی فنڈنگ پر انحصار کم ہو گا۔ اور یونیورسٹیاں ملک کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کریں گی۔