بلوچستان : میر شعیب احمد گاجی زئی امیدوار پی بی 26 کیچ سٹی کارپوریشن نے سی این این اردو سے فون پر گفتگو /بلوچ خواتین کے ساتھ اسلام آباد کے پولیس کارویہ،ریاست میں سب کے حقوق ہوتے ہیں۔ ریاست سب کا ہے۔ اور عوام سے ریاست کی وجود قائم ہے۔ ایک آزاد ریاست سے آزاد قوم کی حیثیت کا پہنچان ہوتی ہے۔ اُس ریاست میں مخلتف زبان بولنے والے یا قبائل آباد ہوتے ہیں۔ ان کے اپنے رسم و رواج بھی ہوتے ہیں۔ انکے رہن سہن میں فرق ہوتا ہے۔
ریاست پاکستان میں بلوچ سندھی پشتونوں کی رسم روج ملتے ہیں۔اِن اقوام کی دوسرے اقوام سے بالکل رسم رواج بالکل مختلف ہیں۔ بلوچ سندھی پشتون ان کے رسم اپنے اقوام کو تحفظ دینے کیلئے وجود میں لائے گئے ہیں۔ دوسرے اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق کو بھی تحفظ ان رسم رواج میں شامل ہے۔جن کو عام الفاظ میں قبائلی قوانین کہا جاتا ہے۔ مثلاً ہمسایہ کا خیال رکھنا، بھوکے کو کھانا کھلانا، دوسروں کی عزت کو تحفظ دینا، خواتین بزرک افراد کی احترام کرنا، بچوں سے پیار کرنا، کسی اور کے حقوق کو تحفظ دینا، اور اپنے حقوق کا تحفظ کرنا، مہمانوازی، مسافر کو تحفظ، رواداری برداشت کو فروغ دینا، ناجائز نہ کرنا نہ کسی کو ناجائز کرنے کی اجازت دینا، دستار دوپٹہ کی احترام کرنا، اپنا بدلہ کسی کو معاف نہ کرنا چاہے،چاہے کتنی صدیاں گزر جائیں۔
اب جو معاملہ بلوچ خواتین بچوں کے ساتھ پیش آیا ناقابل برداشت اور قابل مزمت ہے۔ ایسے عمل جو بلوچ ماٶں بہنوں بچوں سے اسلام آباد میں پولیس کیا۔ یہ ایک اسلامی ریاست میں مناسب عمل نہیں تھا، نہ ہے۔ بلوچ ماٶں بہنوں نھنھی بچیوں کا جس طرح اسلام آباد نے استقبال کیا۔ یہ اب پورے بلوچستان میں ناقابل فراموش مسلہ بن چکا ہے۔ بلوچوں سندھیوں پشتونوں کے دستار مالک اس پر انتہاٸی ناراض نظر آرہے ہیں۔ اظہار کرینگے وقت حالات کی انتظار میں ہیں۔ بلوچ سندھی پشتونوں کے دستار دوپٹہ کی عزت پامال کی گٸی۔ انکے رسم رواج کو جوتے کی نوک پر پنجاب پولیس نے رکھا۔ بہت مشکلات خود پنجاب پولیس نے ریاست پاکستان کیلٸے پیدا کٸی۔
ریاست پاکستان میں پنجاب میں بلوچ سندھی پشتون زیادہ آباد ہیں۔ انھوں نے کبھی ریاست میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ریاست پاکستان سب کا ہے۔ مگر کچھ طاقتور لوگ کمزوروں پر دانستہ حملہ کرکے حالات کو پر خطر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب حالات اس حد تک اسلام آباد پولیس نے خراب کئے۔ہر مظلوم میں پنجاب پولیس سے نفرت پیدا ہوچکی ہے۔پنجاب میں رہنے والے مظلوم پنجابی قوم میں بھی نفرت کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔جس صوبے سے مظلوم کی تعلق ہے۔وہ بھی کچھ سوچ رہا ہوگا۔ عدالتیں اس واقعہ کی نوٹس لیں۔ریاستی ادارے بھی بلوچ بہنوں ماوں کی داد رسی کےلئے اپنا کردار ادا کریں۔ آگ پانی سے بجھتا ہے پٹرول سے نہیں۔ اس آگ کو بجھالنے کیلئے پانی کی کردار ریاستی ادارے ادا کریں۔