تحریر: (علیشہ عابد)
دنیا بھر میں پلاسٹک آلودگی ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جو نہ صرف زمینی ماحولیاتی نظام کو متاثر کر رہا ہے بلکہ سمندری حیات اور ساحلی معیشتوں کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ ہر سال لاکھوں ٹن پلاسٹک سمندروں میں داخل ہوتا ہے، جہاں وہ دہائیوں تک تحلیل نہیں ہوتا، بلکہ مائیکروپلاسٹک میں تبدیل ہو کر آبی حیات اور انسانوں کی خوراکی زنجیر کا حصہ بن جاتا ہے۔
عالمی ردعمل:
پلاسٹک آلودگی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام ایک بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (INC) قائم کی گئی ہے جس کا مقصد ایک بین الاقوامی، قانونی طور پر پابند معاہدہ تیار کرنا ہے۔ اس عمل کا پانچواں اجلاس، جسے INC-5.2 کہا جا رہا ہے، 5 سے 14 اگست 2025 کو جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوگا۔
یہ اجلاس دنیا بھر کی حکومتوں، ماہرین، میڈیا، اور ماحولیاتی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے گا تاکہ وہ پلاسٹک کی پیداوار، استعمال، ری سائیکلنگ، اور فضلے کے بہتر انتظام کے حوالے سے متفقہ اقدامات طے کریں۔
پلاسٹک آلودگی: سمندری ماحولیاتی نظام پر اثرات
سمندر ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ ہیں اور اربوں افراد کی غذائی ضروریات، معیشت، اور آب و ہوا کے توازن میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن پلاسٹک فضلہ، بالخصوص سنگل یوز پلاسٹک، سمندری مخلوقات کو نگلنے، دم گھٹنے، یا زخمی کرنے کا باعث بن رہا ہے۔
تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مچھلیاں، کچھوے، وہیل مچھلیاں، اور دیگر آبی جاندار اکثر مائیکروپلاسٹک نگل جاتے ہیں، جس کا اثر انسانی صحت تک پہنچتا ہے۔ حالیہ سائنسی رپورٹس کے مطابق، دنیا کی تقریباً ہر آبی مخلوق کے جسم میں پلاسٹک کے ذرات پائے جا رہے ہیں۔
عالمی کوششیں اور پاکستان کا کردار
پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی اس پہل کاری کی حمایت کی ہے اور ماحول دوست پالیسیوں کی طرف بڑھنے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان میں پلاسٹک بیگز پر پابندی، صفائی مہمات، اور ری سائیکلنگ پراجیکٹس جیسے اقدامات جاری ہیں، مگر ان کی کامیابی قانون سازی، عملدرآمد، اور عوامی شعور سے جڑی ہے۔
عالمی سطح پر، INC-5.2 جیسے اجلاس یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ دنیا پلاسٹک آلودگی کو ایک مشترکہ عالمی خطرہ تسلیم کرے اور اس کے حل کے لیے پائیدار اور قابلِ عمل فریم ورک تشکیل دے۔
اگرچہ پلاسٹک انسانی زندگی میں سہولت کا باعث بنتا ہے، لیکن اس کے ماحولیاتی نقصانات نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ “سہولت بمقابلہ بقا” کا توازن کیسے قائم رکھا جائے۔
پلاسٹک آلودگی کے خلاف جدوجہد صرف حکومتوں یا عالمی اداروں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر شہری کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا — چاہے وہ سنگل یوز پلاسٹک سے گریز ہو، ری سائیکلنگ کو فروغ دینا ہو یا پائیدار متبادلات کی تلاش۔
پلاسٹک آلودگی کے مسئلے کا حل صرف قوانین میں نہیں بلکہ انسانی رویوں میں چھپا ہے۔ INC-5.2 جیسے عالمی فورمز ہمیں یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے — اور اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا، تو کل کی نسلیں صرف پلاسٹک اور پچھتاوے وراثت میں پائیں گی۔