مولانا، عمران خان سے ملاقات کے لیے باضابطہ پیغام کے منتظر؟

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا ہے کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جانب سے ملاقات کے لیے کوئی باضابطہ پیغام موصول نہیں ہوا، اور اگر ایسا کوئی پیغام آتا ہے تو وہ اس پر غور و خوض کے بعد فیصلہ کریں گے۔

ہفتے کے روز اپنی رہائش گاہ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہامجھے پی ٹی آئی کے بانی کی جانب سے ملاقات کے لیے کوئی باضابطہ پیغام موصول نہیں ہوا۔ اگر ایسی کوئی درخواست کی جاتی ہے تو میں مکمل غور کے بعد فیصلہ کروں گا۔

ان کے یہ بیانات اس قیاس آرائی اور میڈیا رپورٹس کے بعد سامنے آئے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جے یو آئی (ف) نے اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی رہنما سے ملاقات کا منصوبہ بنایا ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ عدالت کی منظوری کے بعد عمران خان سے ملاقات کریں گے تاکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت کی جا سکے۔

تاہم، جے یو آئی(ف) نے فوری طور پر ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ پارٹی کے ترجمان نے کہا، “یہ صرف افواہیں ہیں۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ کو کوئی خاص ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔”

ترجمان نے پی ٹی آئی بانی کے خلاف مقدمات میں منصفانہ ٹرائل کی ضرورت پر بھی زور دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ جے یو آئی (ف) بطور اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے ساتھ رابطے میں رہے گی۔

8 فروری کے انتخابات پر اپنے تحفظات کا اعادہ کرتے ہوئے، فضل الرحمان نے شکایت کی کہ ان کی جماعت کو مساوی مواقع نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا، “کچھ لوگ استعمال ہونے کے لیے تیار تھے، لیکن ہم نے کسی ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کیا۔”

سیکیورٹی معاملات پر بات کرتے ہوئے، فضل الرحمان نے خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خبردار کیا، کہ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور ٹانک جیسے اضلاع میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے، یہ علاقے دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث ٹانک کی عدالتوں اور سرکاری دفاتر کو ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی جماعت کے تعلقات کے بارے میں سوال کے جواب میں، فضل الرحمان نے کہا، “ہم وفاقی سطح پر پی ٹی آئی کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن صوبائی معاملات پر ہمارے اختلافات ہیں۔”

اپنا تبصرہ لکھیں