اسلام آباد: دنیا بھر میں جاری افراتفری اور تشویش انگیز عالمی منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ دانش ور اور سیاسیات کے ماہرین قوم پرستی اور وطنیت کے تصور اور اس کے تفرقہ انگیز مضمرات کا از سر نو جائزہ لیں۔ عالمی حالات میں اس بات کی ضرورت زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار پر مبنی طرز حکمرانی کے لیے زیادہ جامع اور ہمدردانہ طرز عمل تشکیل دیا جائے۔ اس تناظر میں یہ مفید ہو گا کہ خلافت کے تصور کو ایک کنفیڈریشن کے طور پر ایک ایسے ماڈل کے طور پر دیکھا جائے جس سے نہ صرف دنیا بھر میں انسانی حقوق کو تحفظ ملے بلکہ متنوع طبقات کے درمیان یکجہتی کو بھی فروغ ملے۔ یہ تجویز معروف اسکالر اور یونیورسٹی آف ٹولیڈو، امریکا میں علومِ اسلامیہ کے لیے امام خطاب چیئر ڈاکٹر عوامیر انجم نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ‘قومی ریاستی نظام کا بحران: ایک قابل عمل متبادل کی تلاش’ کے موضوع پر دیے جانے والے ایک لیکچر کے دوران پیش کی۔ یہ تقریب جس میں ماہرینِ تعلیم، دانش وروں اور طلباء نے یکساں طور پر شرکت کی، ایک ایسے علمی مذاکرے کی شکل اختیار کر گئی جس میں موضوع کے مختلف پہلوؤں کا تنقیدی انداز میں احاطہ کیا گیا اور ان سے متعلق مختلف نقطہ ہاے نظر پر گفتگو کی گئی۔ شرکاء کا عمومی احساس تھا کہ مربوط اور مرتب انداز میں سوچنے، باہم تبادلۂ خیال اور اجتماعی کوشش سے بہتر مستقبل کی بہتر صورت گری کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر عویمر انجم کا کہنا تھا کہ وطنیت کے قوم پرستانہ تصور کو بالعموم انسانی اتحاد کے مظہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ اس نے انسانی معاشروں میں تقسیم کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان موجود سماجی، اقتصادی اور سیاسی تناؤ کو بڑھا کر ایسی تفریق کا باعث بن سکتی ہے جس میں کسی قوم سے وابستگی دیگر انسانوں کے لیے تباہ کُن ہو سکتی ہے۔ ایسی ہی تباہی کا ایک مظہر غزہ میں اسرائیلی جارحیت اور اس ظالمانہ نسل کشی میں عالمی طاقتوں کا گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے مزید اس بات پر زور دیا کہ قوم پرستی کی بنیاد شناخت کے من گھڑت تصورات ہیں، جو تمام انسانوں کی فطری مساوات کو مجروح کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ “قوم پرستی ایک طاقتور لیکن عمومی طور پر تباہ کُن تصور ہے۔” اس تصور کی تفرقہ انگیز فطرت کے حوالے سے احتیاط پر زور دیتے ہوئے مقرر نے کہا کہ یہ طرزِ فکر انسانوں کی اپنے اور پرائے کی درجہ بندی کرکے نفرت اور زینوفوبیا کو فروغ دیتا ہے۔ اس طرح قوم پرستی کا نتیجہ اکثر تشدد اور جبر ہوتا ہے۔ یورپی یونین اور ریاست ہاے متحدہ امریکا جیسی مثالیں ایسے نمونے پیش کرتی ہیں جہاں تہذیب اور بعض مشترک اقدار سے وابستگی کا اجتماعی احساس دوسری شناختوں پر چھا جاتا ہے۔ ان مثالوں کی موجودگی میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ خلافت کا اسلامی طرزِ انتظام آج بھی اتنا ہی قابلِ عمل اور مفید ہے جتنا کہ ماضی میں تھا۔ اسلام دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک نظریے پر متحد کرتا ہے ، لیکن مسلم اکثریتی ممالک کے اندر قوم پرست تحریکوں نے بعض اوقات مذہبی اتحاد کی قیمت پر بھی اپنی الگ قومی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر انجم نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ قوم پرستی کے تصور اور اس کے دور رس اثرات پر نظر ثانی کریں۔ ڈاکٹر انجم کی پیش کردہ سوچ کا محور خلافت کو حکومتوں کی ایک کنفیڈریشن کے طور پر دوبارہ تصور کرنا اور عالمی انسانی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی اور معاشی استحکام کو فروغ دینا ہے۔ ان کااستدلال تھا کہ یہ ماڈل جبر اور تقسیم و تفریق سے عبارت موجودہ نظام کا ایک قابلِ عمل متبادل پیش کرتا ہے اور ایک ایسے مستقبل کے امکانات پیش کرتا ہے جہاں انصاف، ہمدردی اور یکجہتی غالب ہو۔ مزید برآں، تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں یہ امّتِ مسلم میں انتہائی ناگزیر اتحاد اور دوبارہ ابھرنے کی قوت حاصل کرنے کی طرف ایک راستہ بھی ہے۔ فاضل مقرر نے طویل مدتی امنگوں کو حاصل کرنے کے لیے فوری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے نوجوان مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ مصنوعی سرحدوں کو عبور کریں، بامعنی بات چیت میں مشغول ہوں اور معاشی ترقی، مذہبی گفتگو اور تعلیم جیسے اہم مسائل پر تعاون کریں۔ اپنی وسیع تحقیق اور مہارت کی بنیاد پر ڈاکٹر انجم نے مسلم دنیا کو درپیش عصری چیلنجوں کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالی، جس میں انتہا پسندانہ نظریات کی رغبت سے لے کر جمود کو برقرار رکھنے کے نقصانات تک شامل ہیں۔ اُن کی بصیرت مشکل وقتوں کا سامنا کرنے کے لیے قابل قدر نقطۂ نظر فراہم کرتی ہے اور اتحاد اور افہام و تفہیم کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔