خواتین اور ہراسانی (اور ہمارے رویے؟)

بدبختی ہے کہ کچھ بھیڑیا صفت نالائق مرد خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ اکثریت ہرگز ایسی نا ہے۔ ہم نے موٹر ویز، شاپنگ مالز، درسگاہوں اور ورک پلیس پر یہ لایعنی حرکات ماضی قریب اور حال ساقط میں دیکھ رکھی ہیں، سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اب یہ چیز عیاں ہونے لگی ہے کہ کراچی کی گلیوں میں خواتین کے ساتھ ہراسانی بڑھتی چلی جارہی ہے، ہر بار کی طرح ایک ہوائے خاص رواں دواں ہے کہ قانون سازی کی ضرورت ہے سزاؤں کی ضرورت ہے، خواتین کو سیلف ڈیفنس کی مشقیں کرائی جانی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

کچھ یہ کہتے ہیں کہ یہ جو مادر پدر آزاد لفنگے نامعقول آوارہ مرد یا لڑکے ہیں ان کی تربیت کی ضرورت ہے ماؤں اور اساتذہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا، میں ان تمام باتوں کی نفی نہیں کرنا چاہتا مگر یہ چیزوں کو ٹھیک کرنے کا ہمارا زاویہ ہی غلط ہے کتنے لڑکوں کی تربیت ہوپائے گی!!! کیا کوئی گناہ گار دھرتی پر نہ رہ جائے گا یا کتنوں کو سزا دو گے یا کیا ہر لڑکی میں اپنی جرات اور بہادری ہے کہ وہ اپنی جائے ملازمت پر ہونے والی ہراسانی کے خلاف بول سکے اس پر تہمتیں نہ لگ جائیں گی، کتنی ہی ایسی خواتین ہیں جو ایسا حال ستم گھر جا کر بتا سکتی ہیں۔

ان تمام چیزوں کو بھی ہونا چاہیے مگر دوسری طرف ہمارے رویے کیا ہیں ہمارے محاورے کیا ہیں، یہ جانچنا بے حد ضروری ہے:

میں نے چوڑیاں تھوڑی پہن رکھی ہیں۔
مرد بن مرد۔
مرد کو کہاں درد ہوتا ہے۔
مرد بھی بھلا روتے ہیں کیا۔
چاٹ تو لڑکیاں کھاتی ہیں تم کیوں کھا رہے ہو۔

اور بھی بے شمار ایسی ما فوق الفطرت باتیں ہیں جو ہمارے رویوں کو جنم دیتی ہیں اور ان پر اثر انداز ہوتی ہیں یقینا اس کے تاثرات اچانک رونما نہیں ہوتے پر وقت کے ساتھ ظاہری ساکھ میں ڈھلتے ہیں اور دیر پا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔

بڑا تعجب ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ گاڑی پر والد یا والدہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں آتے ہوئے پانچویں جماعت کی بیٹی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوتی ہے اور دوسری جماعت کا بیٹا اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوتا ہے، اب اگر ڈرائیور گاڑی چلائے تو سمجھ میں آ بھی جاتا ہے یا بھائی بڑا ہے تب بھی مانو زمانے کی روایات ہیں مگر بڑی بہن بھی درجے میں چھوٹے بھائی سے کم تر ہے!!! اب یقینا میں اس بات کا ادراک رکھتا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے اکثر خاندانوں کے وہم و گمان میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ہوتی کہ بیٹے کو زیادہ اہمیت دینا ہے مگر خدشہ تو رویوں پر اثر انداز ہونے کا ہے جو یقینا اثر انداز ہو رہا ہے۔ اگر بات کی جائے پردے کی تو بات اہم ہے مگر پانچویں جماعت کی بچی کا پردہ بھی بھلا ہوتا ہے؟ جبکہ اس لڑکی کی ماں کا شوہر کے ساتھ اگلی سیٹ پر گاڑی میں بیٹھے پردہ نہیں ہوتا!!!

صنف نازک سے صنف آہن تک کا سفر، اب یہ بھی ایک ایسا فقرہ ہے جو ہمیں کسی ان دیکھے جال میں پھانسے ہوئے ہے اب بھلا بات یہ ہے کہ صنف نازک بلاتے کیوں ہو؟ اب ہمارا وہی میڈیا جو عورت کی آزادی اور خودمختاری کی باتیں کرتا ہے وہی صنف نازک کے کارنامے بتاتا ہے اور بڑے لیس دار فقروں سے بات بتاتا ہے کہ جیسے خواتین نے کچھ کر لیا ہے تو کارنامہ ہوگیا ہے یہ تمام باتیں لاشعور میں ایک خلش پیدا کرتی ہیں کہ کچھ تو عمومی حالات سے مختلف ہے۔جبکہ کچھ خاتون کا کر لینا بھی اسی برابر ہے کہ جیسے کسی مرد نے کوئی کام سر انجام دیا ہو اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونا چاہیے۔

بدنصیبی سے جو لوگ عورتوں کو کمزور سمجھتے ہیں تو وہ بھلا کیا اخلاقی جرات کریں اور آگ کے سامنے اس سے جون کے مہینے میں کھانے نہ بنوائیں؟ وہ تو پھول جڑی ہے وہ کیسے بڑے گھر کی صفائی کر سکتی ہے مگر وہ کرتی ہے وہاں وہ ہرگز نازک نہیں ہے!!!

ایک اور طرف میرا ماؤں سے شکوہ ہے جو بچپن سے ہی بچیوں کو خوبصورت ہونے میں لگائے رکھتی ہیں، ہاں بھئی میری گڑیا سے زیادہ تو خوبصورت ہی کوئی نہیں ہے، تم سب سے اچھی لگ رہی تھی، تمہارا رشتہ بہت اچھا ہوگا کیا روپ دیا ہے خدا نے تمہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ قابلیت کہاں گئی آپ نے تو اسے پرستان کے شہر کی حور بنا کر رکھ دیا ہے جسے اپنے حسن افزائش کے سوا کچھ آپ سکھاتے ہی نہیں، اس کی تعریف ہوتی ہے تو میک اپ کی کپڑوں کی بننا سنورنا کوئی بری بات نہیں مگر میں جو بات کر رہا ہوں وہ ہے دیر پا اثرات کی جو ان رویوں اور مشاغل سے بڑی گہری دراڑیں ڈال جاتے ہیں۔

میں نے دیہاتوں میں دیکھ رکھا ہے کہ گھر نلکا یا کوئی بھی شے اگر خراب ہو جائے تو پلمبر کو یا متعلقہ ماہر کو گھر لایا جاتا ہے اور پہلے گھر میں پردہ کروایا جاتا ہے مگر بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ خواتین ابھی گھر کے صحن میں بیٹھی ہی ہوتی ہیں اور وہ نامحرم شخص اندر آجاتا ہے جس پر ایک دوڑ کا منظر شروع ہوتا ہے خواتین ایسے بھاگتی ہیں جیسے کوئی انسان نہیں کوئی درندا آگیا ہو، اب ایسا نہیں کہ میں پردے کے خلاف ہوں مگر بھاگ کر جانے کی بجائے وہ باوقار طریقے سے بھی گھر کے اندر جاسکتی ہیں، اب یہ عمل بھی مردوں اور عورتوں میں بے حد دوریاں پیدا کرتا ہے جو غیر فطری ہے اور انسانی وقار کے خلاف بھی ہے پردے کا ہرگز مطلب ایک دوسرے سے خار کھانا نہیں ہے۔

اب آپ نے صدیوں سے ان تمام ظاہری طور پر عام باتوں کو رائج کر رکھا ہے جن کے اثرات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ خواتین کمزور ہیں انہیں بھائی،باپ، بیٹے اور شوہر کے ساتھ کی ضرورت رہتی ہے، ان کی ضروریات پوری کی جانا کوئی حل نہ ہے کہ اگر کوئی گھر کا فرد موجود نہ ہے تو خواتین کسی مغل سلطنت کے حرم کی باندیوں کی ماند زہر کی شیشی کپڑوں کے ساتھ باندھ کر پھریں کہ کب دشمن کا حملہ ہوجائے اور کب انہیں زہر پینا ہو یا کب انہیں کسی کوئیں میں کود کر اپنی آبرو کی حفاظت کرنا پڑ جائے۔

ہمیں اپنے ان تمام تر رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور اپنی خواتیں کے ساتھ یہ نازک ہونے کا جو حرف ہے اسے ہٹا کر یہ باور کروانا ہے کہ وہ بھی لڑکوں کی طرح ہی ہیں اگر کسی لڑکے کے بال بڑھا دیے جائے اور خاتون کے بال کاٹ دیے جائے تو دونوں کی پہچان کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون لڑکی ہے اور کون لڑکا ہے تو پھر یہ سماجی تواہم پرستی آخر کیوں ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی غلط رسم ورواج کی موجد بنتی ہیں۔

ہمیں لڑکوں کی تربیت تو کرنا ہی ہے مگر یہ کیا فضول بات ہے کہ لڑکیوں کو سلف ڈیفنس کی ٹریننگ دو بس ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں بتا دو بیٹا خدا نے تمہیں اس واسطے پیدا نہیں کیا کہ باپ، بھائی، شوہر آپ کے گارڈ بن کر پھریں کوئی موٹر سائیکل پر گزرتے ہوئی ہاتھ لگاتا ہے تو ایک تھپڑ مارو، لات مارو، جو ہاتھ لگتا ہے مارو آخر کیوں سکول، کالج کے باہر لڑکیوں کے مجمعے کو چند لڑکوں کا خوف رہتا ہے اگر اوہ تمام ان پر چڑھ دوڑیں تو ان کی ہڈیاں بھی شاید نہ مل پائیں۔

کبھی ویگو میں جاتی ہوئی لڑکی نے پیدل لڑکے کو نہیں چھیڑا کیونکہ وہ لڑکا ہے مگر ایک پیدل لڑکا ویگو والی لڑکی کو چھیڑ سکتا ہے کیونکہ لڑکی بااثر ہوکر/با اختیار ہوکر بھی کمزور ہے کیونکہ وہ لڑکی ہے!!!

ہاں یہ اتنا آسان شاید نہیں ہے مگر بات ساری ہماری ذہنی خلش کی ہے جو ہمارے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بٹھائی جاچکی ہے اور ہم لاشعور میں اس پر سوچنے سمجھے بغیر اندھوں کی طرح عمل پیرا ہیں، جیسے کسی سحر میں جکڑی ہوئی کٹھ پتلیاں ہوتی ہے جو مداری کے سحر سے نکل ہی نہیں پاتی مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی سحر نہیں ہوتا وہ تو مداری کی انگلیوں کی روانی ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ اس کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اور اس کے ہاتھ اپنے آپ ہی لاشعوری طور پر پتلیاں ہلاتے رہتے ہیں ٹھیک اسی طرح کہ جیسے ڈرائیور گاڑی چلانا سیکھ جائے تو گیر نکالنا بریک لگانا سب لاشعوری طور پر اس کے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں مگر ان پر غور کیا جائے تو عادتیں بدل بھی جایا کرتی ہیں رویوں میں تبدیلی آبھی جایا کرتی ہے مگر اس کے لیے بھی وہی مدت درکار ہے جتنی کسی معتو عادت کو رویوں کے ذریعے پالینے میں لگے ہیں۔

آخر میں میری تمام لڑکیوں سے بس یہی دست بدستہ عرض ہے کہ آپ نہ تو پری ہیں نہ شہزادی ہیں جو آپ کی مدد کو کوئی شہزادا پرستان سے آئے گا۔ ایک چھچھوندر نما لڑکے کو دیکھ کر یا ایک آوارہ گروہ کو گلی کے نکر پر دیکھ کر آپ گھر سے نکلتے ہوئے کیوں ڈرتی ہیں جو ہاتھ لگے اسے دے ماریں، وہ کچھ نہ کر چائے گا۔ خدا نے آپ کو مردوں کا محتاج پیدا نہیں کیا کہ آپ ان کے سوا چل نہ پائیں، بس یہ آج سے مان لیں کہ آپ اگر پورے کمبے کے لیے طرح طرح کے پکوان بنانے کے لیے کسی باورچی سے کم نہ ہیں تو آپ نازک نہیں ہیں۔ مگر آپ گھر سے باہر دو تھپڑ رسید نہیں کر سکتی جو انہی بدنصیب رویوں کی کارستانی ہے جو ہماری رگوں میں گھول دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ کا مقصد حیات صرف خوبصورت لگنا نہیں ہے


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں