جاگو شاید کسی کا گھروندہ ٹوٹا ہے، جاگو شاید کسی کی دیوار بہہ گئی ہے۔ جاگو شاید کسی کے پیروں کی زمین کھینچ لی گئی ہے جاگو کہ کسی کے خواب ایک بار دوبارہ ہہہ گئے ہیں، یا شاید دریا کی بھوک کی نظر ہو گئے ہیں۔
بھوک کیسی بھوک! وہ بھوک جو ایک دھائی میں چار بار کسی آسیب کے سائے کی طرح آتی ہے اور سارا منظر خوف زدہ کر جاتی ہے ۔ وہ بھوک جو پرندوں کے گھونسلوں میں پلنے والی نئی نسل اجاڑنے آتی ہے۔ یا ایسی پیاس جو زندگی کے تمام سراغ مٹا کر ملبے کو تحفتا چھوڑ جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی قدرت کا انتقام ہے جو قدرت اپنے ساتھ ہونے والی بد سلوکی کا لیتی چلی جا رہی ہے یا اس میں حکمرانوں اور ارباب بست و کشاد بھی برابر کے شریک ہیں جو نہ تو جاگتے ہیں اور نہ ہی ابدی نیند سلا دیے جاتے ہیں۔
اگر قدرت بد سلوکی کا انتقام لیتی ہے تو وہ ایک عام کچے مکان میں بسنے والے ہاری یا مزدور سے کیوں لیتی ہے؟ کیا قدرت اتنی کمزور ہے کہ وہ طاقت وروں سے اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا بدلہ نہ لے سکے ۔ اگر ایسا نہیں ہے اور قدرت واقع قوت مند ھے تو آخر ان حکمرانوں کو اتنی چھوٹ آخر کیوں ملی ہوئی یے، کیوں ان پر کوئی ریلا نہیں گزرتا کیوں ان کی کوکھ نہیں اجڑتی کیوں ان کے خواب، ان کی بیٹوں کے جہیز دریا کی بھوک کا شکار نہیں ہوتے؟ اگر اس بات کا جواب کوئی دے سکتا ہے تو وہ یقینا قدرت ہے۔
2010 میں جب سیلاب نے ملک خداداد کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا، دریائے سندھ اور چناب دونوں ٹھاٹھیں مار رہے تھے اور تب ہی مظفرگڑھ اور ملتان کے بیچ میں ٹول پلازہ کے قریب ایک پولیس سٹیشن دریا کی بھوک کا شکار ہو گیا مگر اس کا ملبہ 15 سال تک وہیں کسی لاش کی ماند ارباب اختیار کو کسی آسیب کی ماند منہ چڑاتا رہا، پر جب انکھیں اندھی اور کان بہرے ہو جائیں تو کیا سنائی دیتا ھے ، کسی کو کچھ سنائی نہ دیا۔ اور ایک بار پھر دریا کی بھوک جاگی اور 2025 کا سیلاب پھر اسی کھنڈر ملبے (پولیس سٹیشن) سے خراج مانگے دروازے پر پہنچ گیا جیسے اس پولیس سٹیشن کے اجداد نے دریا سے کوئی قرض مانگ رکھا ہو اور جو نسل در نسل سود کی جہنم کے توفیل بڑھ رہا ہے گھٹ نہیں رہا۔
سیلاب ایک قدرتی آفت سے مگر اس سے کچھ حد تک بچنے کی کوئی کوشش بھی تو نظر آنی چاہئیے کہ ہمارے سر کا تاج ، ہمارے حکمران ہمیں اس منجھدار سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں کوئی حفاظتی بند بنائے جا رہے ہوں یا دریاؤں ندی نالوں یا نہروں کے قریب آبادی کو مینج کیا جا رہا ہو، مگر افسوس کہ ایسا کچھ نظر نہیں آتا ۔
مگر جب پانی پلوں سے ٹاپتا ہوا شہروں، دیہاتوں کو صفا ہستی سے مٹاتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، تو سب بیدار ہوتے ہوئے تجاوزات پر تنقید کرتے چلے جاتے ہیں مگر حقیقتا تجاوزات کرنے والوں کو سیاسی دھارس اگر کوئی دیتا ہے تو وہ یہی حکمران ہیں ۔
سوچنے کی بات ہے کہ آئین کا آرٹیکل 9 ہر شخص کی آزادی اور زندگی کی ضمانت دیتا ہے مگر ہم لاشوں کو، مرے ہوئے خوابوں کو، اور سسکتی ہوئی آسوں کو دبانے میں لگے ہیں۔ تمام سرکاری مشینری کی کوشش رہی ہے کہ ملبہ کم سے کم دنیا کو دکھایا جائے بس یہ بیان کیا جائے کہ رہائشیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ فالحال سیاست بچالیں اور بعد میں البم سے ملبے کی تصاویر دکھا کر چندہ کما لیں (یعنی ڈالر کی بھیک)
قصور وار کون ہے یہ تو سب کو معلوم ھے اگر کوئی کہتا ہے کر معلوم نہیں تو وہ شریک جرم تو ہو سکتا ہے نا آشنا نہیں۔
ہر سمت ملبوں کا ڈھیر، دیہاتوں میں فصلوں کی تباہی چیخ و پکار کر رہی ہے مگر سننے والے کانوں میں سیسا بھرا جا چکا ہے۔ پہلے پہل اسی کاشتکار کی فصل کو مناسب نرخ نہیں ملا اور اب بنیے شہروں میں اُسی سے دگنا چگنا کما رہے ہیں اور اب کی بار تو فصل تباہ ہونے پر بھی حکمرانوں کی چاندی ہوگئی ہے کیونکہ باہر سے اشیاء خرد و نوش برآمد کرنے کا ٹیکا عوام کی جیب کو لگے گا اور کسی شاہی منعم کو سبسیڈی دے کر سیاسی احسانات اتارے جائیں گے۔
بانو قدسیا کہ گئی ہیں کہ ہم گدھ صفت ہیں یعنی مردار خور مگر اب ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ ہم مردار خور تو تھے ہی اب ہم ملبہ فروش بھی کہلائے جا سکتے ہیں ۔ ملبہ دکھا کر دنیا سے خیرات اینٹھو اور نئے قدرتی انتقام کا انتظار کرو اور اگر آفت آنے میں تاخیر ہونے لگے تو پہاڑوں سے ماربل کے نام پر پتھر نکالو، ضرورت کچھ زیادہ ہو تو درختوں کی قربانی پر بکر عید کی بجائے پر جمعے کو کرنے کا تجدیدی فتوی شائع کر دو پھر دیکھوں ملبہ کیسے سونا نہیں اُگلتا—- نوٹ: یاد رہے کہ یہ سونا خاص و عام دونوں کو دستیاب نہ ہوگا۔
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آرا مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔