صحافی :.عابد چوہدری
اسلام آباد
16اگست پاکستان کی تاریخ کاسیاہ دن فیصل آباد ڈویژن کے علاقہ تحصیل جڑانوالہ میں کچھ مذہب سے ناآشناشرپسندوں نے متعدد گرجا گھروں اور مسیحیوں بھائیوں کے کئی مکانات نظر آتش کردیئےتھے اور اور ان نام نہاد جذبہ ایمانی سے لبریز ”ہجوم” کا ابھی ایمان پوری طرح تازہ نہیں ہوا تھا۔کہ مسیحی قبرستان کی بے حرمتی بھی کر ڈالی.ہائے افسوس
ان شرپسند عناصرنے کی طرف سے ان مسیحی بچوں کے وہ باجے اور جھنڈے بھی جلا دیئے جو ان معصوم بچوں نے جشن آزادی میں اپنی خوشی کا اظہار کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کے بعد خریدے ہونگے۔
کیا تخلیقِ پاکستان سے تعمیرِ پاکستان تک کے ہر مرحلے میں ہماری مسیحی برادری نے نہایت گراں قدر خدمات سر انجام دی نہیں دیں ۔ جڑانوالہ کا یہ واقعہ انتہائی دل خراش واقعہ ہے ۔افسوس سولہ اگست 2023ء کو رونما ہونے والا واقعہ کوئی پہلا تو نہیں بلکہ ہمارے دامن میں ایسی بیشمار وحشیانہ فتوحات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے.
کیا آپ دیکھنا چھاہتے ہیں ایسی دردناک فتوحات؟
1997ء کا شانتی نگر، 2009ء کا گوجرہ، 2013ء کا جوزف کالونی اور پشاور چرچ کے بعد اب فیصل آباد و جڑانوالہ۔ چھوٹے موٹے واقعات کو تو ہم خاطر میں لاتے ہی نہیں
کیا آپ کو اسلام آباد کا رمشا ء کا واقع بھول گیا جس معصوم کو ناحق ایک عرصہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا.شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع شہزادکو بھٹے میں زندہ جلا دیا کیا.
کیا ہم قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد اقلیتوں کے کردار کو بھول گئے ہیں ان کا پاکستان کے لئے کیا اہم کردار تھا؟
کیا پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک ناکام ریاست ہے؟ جنگ میں شہریوں کی حفاظت صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے. بہت سے فکرمند اور باضمیر پاکستانی مسلمانوں نے نہ صرف اس حالیہ 16 اگست کے سانحہ جڑانوالہ ہی نہیں بلکہ اس سے قبل مسیحیوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے خلاف ہونے والے اسی طرح کے جرائم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے بہترین نیت کے ساتھ یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی مسیحیوں نے پاکستان کے لیے شاندار خدمات انجام دی ہیں۔
لیجنڈری فائٹر پائلٹ اور 1965 کی جنگ کے ہیرو گروپ کیپٹن سیسل چوہدری اس کی ایک مثال ہیں۔
معیاری سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں کا ذکر پاکستان کے مسیحیوں کی بہترین خدمات کے طور پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس جوش و جذبے میں ایک لازوال افسانہ بھی جنم لے چکا ہے۔
اس وقت (یعنی تقسیم سے پہلے 1947 میں) ایس کے سنگھا ، ایک مسیحی پنجاب اسمبلی کا اسپیکر تھا۔ انہوں نے اپنی برادری کے ساتھ پنجاب میں رہنے کے لئے پاکستان کے لیے ووٹ کاسٹ کیا۔ اس طرح ایس پی سنگھا نے پنجاب کے رہنےمیں میں کردار ادا کیا۔ اس موقع پر ماسٹر تارا سنگھ مسلمانوں سے بدلہ لینے کے اشارے کے طور پر کرپان لہراتے ہوئے اسمبلی سے کود پڑے۔ ان کے الفاظ پریس نے رپورٹ کیے تھے۔ اس طرح ایک مسیحی ووٹ نے پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنانے میں جمہوری انتخاب کا باعث بنا۔
یہ نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ ، آخری وائسرائے، لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے تمام اقسام کے ہندوستانی رہنماؤں کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کی تقسیم ناگزیر ہے۔ اس کا نتیجہ 3 جون 1947 کی تقسیم کا منصوبہ تھا۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ بنگال اور پنجاب کی اسمبلیاں بھی ووٹ دیں گی کہ آیا ان کے صوبوں کو متحد رہنا چاہیے یا مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جانا چاہیے۔ دونوں اسمبلیوں کی مرضی معلوم کرنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ انہیں دو بلاکس میں تقسیم کیا جائے: ووٹ ڈالنے کے لیے مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے بلاکس۔ اگر کسی صوبے میں ایک بلاک نے بھی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا تو اس پر عمل درآمد ہونا تھا۔
اس کے مطابق پنجاب قانون ساز اسمبلی کے اراکین، جو مسلم اکثریتی مغربی بلاک اور ہندو سکھ اکثریتی مشرقی بلاک (1941 کی مردم شماری کے مطابق تصوراتی بنیاد پر) میں الگ الگ منظم ہوئے، نے 23 جون کو صوبے کی تقسیم کے سوال پر ووٹ دیا۔ . مغربی بلاک کی ووٹنگ کی صدارت مسیحی اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا نے کی، جب کہ ڈپٹی اسپیکر سردار کپور سنگھ نے مشرقی بلاک کی ووٹنگ کی صدارت کی۔ مغربی بلاک (جس میں پنجاب کے 17 اضلاع شامل ہیں) نے پنجاب کی تقسیم کی تحریک کو 27 کے مقابلے 69 ووٹوں سے مسترد کر دیا جبکہ مشرقی بلاک (12 اضلاع پر مشتمل) نے مسلم لیگ کے رہنما خان آف ممدوٹ کی تحریک کو 22 کے مقابلے 50 ووٹوں سے مسترد کر دیا۔ صوبے کو متحد رکھنے کے لیےتھا۔ لہٰذا، پنجاب اسمبلی میں کوئی ٹائی نہیں ہوئی کہ ایس پی سنگھا کا ووٹ فیصلہ کن طور پر پاکستان کے حق میں جھک سکے۔ مشرقی بلاک نے تقسیم کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اسے قبول کر کے نافذ کیا جانا تھا۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایس پی سنگھا کے ووٹ سے پاکستان بنا . جبکہ ایسا نہیں
Translation is too long to be saved
فرقہ وارانہ لحاظ سے، 88 مسلمانوں، بشمول خضر ٹوانہ اور یونینسٹ پارٹی کے سات دیگر ارکان، دو ہندوستانی مسیحی (ایس پی سنگھا اور فضل الٰہی) اور ایک اینگلو انڈین مسیحی(مسٹر گبن) نے متحدہ پنجاب کے لیے ووٹ دیا۔ اسمبلی کے ہندو، سکھ اور درج فہرست ذات کے ارکان، جن کی تعداد مجموعی طور پر 77 تھی، نے پنجاب کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا۔ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب
The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed: Unraveling the 1947 tragedy through Secret British Reports and First-person Accounts (Oxford University Press, 2012
تاہم، بعد میں جولائی 1947 میں، جب پنجاب کی مختلف جماعتوں نے پنجاب باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنے اپنے مقدمات پیش کیے، تو ایس پی سنگھا اور گبن نے پنجاب کو متحد رہنے کے حق میں بات کی، لیکن اگر اسے تقسیم کرنا تھا تو انہوں نے اپنی برادری کو پنجاب میں رکھنے کو ترجیح دی۔ پاکستان مسٹر بنرجی کی قیادت میں ایک حریف عیسائی گروپ نے استدلال کیا کہ وہ ایک متحدہ ہندوستان چاہتے ہیں لیکن، اگر تقسیم ہوا تو وہ ہندوستان میں رہنا چاہیں گے۔ مسیحی پنجاب میں ایک معمولی اقلیت تھے۔ عیسائیوں کی مرکزی پنجاب قیادت یقینی طور پر لاہور میں مقیم تھی اور ایس پی سنگھا ان کا رہنما تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پنجاب پاکستان میں رہے لیکن اس طرح کی حمایت 23 جولائی 1947 کو فیصلہ کن کاسٹنگ ووٹ میں ترجمہ نہیں کر سکی جیسا کہ پاکستان میں اکثر غلطی سے ذکر کیا جاتا ہے۔
حکومت کو چاہئے جس طرح آئین پاکستان ایک مسلمان کو حقوق دیتا ہے اسی طرح پاکستان میں بسنے والی دوسری اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے .اس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا.اقلیتوں پر ظلم کرنے والے نا نہاد اسلام کے ٹھیکیدار اسلام کا مطالعہ توکر لیںشاید آپ کو نماز بھی پڑھنی نا آتی ہو اراکین اسلام کا پتانا ہو . یا ریاست مدینہ کے قوانین پڑھ لیں تو اپ کو پتا چلے گا کہ حاکم مدینہ کو بھی بغیر تحقیق کے کسی کو سزادینے کا حق حاصل نہیں تھا. توپھر آپ کون ہوتے ہیں اور کس قانون ٰیا مذہب کے تحت معصوموں اور ان املاک کو جلانے یا سزا دینے کا حق حاصل ہے .
کمال کی تحریر ہے جناب۔