ترکیہ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔گزشتہ روز ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ “ہم ان تمام افراد کے لیے اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں جنہوں نے اپنی جانیں کھو دیں اور ان کے خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ انقرہ پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں “مکمل” حمایت کرتا ہے۔
سرکاری ذرائع اور مقامی میڈیا کے مطابق پیر کے روز جنوب مغربی اور شمال مغربی پاکستان میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے حملوں اور جھڑپوں کے دوران کم از کم 74 افراد ہلاک ہوئے جن میں 21 دہشت گرد اور 14 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
پاک فوج کے بیان کے مطابق دہشت گردوں نے ضلع موسیٰ خیل، قلات اور لسبیلہ میں فوج پر مربوط حملے کیے، جن میں 21 دہشت گرد اور 10 نیم فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔
جھڑپوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مزید چار اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ دیکھا ہے، خاص طور پر شمال مغربی خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی بلوچستان کے صوبوں میں۔
معدنیات سے مالا مال بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر غریب ترین صوبہ ہے۔ سیکیورٹی فورسز طویل عرصے سے بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کم شدت کی بغاوت کا سامنا کر رہی ہیں، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ صوبے کو بڑے ترقیاتی منصوبوں سے محروم رکھا گیا ہے۔
یہ صوبہ 64 ارب ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا بھی ایک اہم راستہ ہے، جس کا مقصد چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ کو بلوچستان کی گوادر بندرگاہ کے ساتھ سڑکوں، ریلوے اور پائپ لائنز کے نیٹ ورک کے ذریعے منسلک کرنا ہے تاکہ کارگو، تیل اور گیس کی ترسیل کی جا سکے۔