ناقص طرز زندگی کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں 26 فیصد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔عالمی یوم ذیابیطس کے حوالے سے ذیابیطس سنٹر اسلام آباد نے ہفتہ کے روز سیمینار کا انعقاد کیا۔چئیرمین ذیابیطس سنٹر اسلام آباد ڈاکٹر اسجد حمید نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ذیابیطس مریض کے گردے فیل کرنے، پٹھے کمزور کرنے اور جگر پر چربی کا باعث بنتا ہے۔زیادہ خوراک اور کاربو ہائیڈریٹس ذیابیطس میں مبتلا کرنے کا بڑا زریعہ ہیں۔ذیابیطس سے بچاو کے لیے طرز زندگی میں مغرب کی نقالی کرنے کی بجائے مقامی سطح پر صحت مند طرز زندگی اپنانا چاہیے۔ہمارے جسم کا ڈھانچہ مقامی ہے تو اس کے مطابق مقامی صحت مندانہ خوراک کا استعمال زیادہ مفید ہے۔ہم دنیا میں سب سے ذیادہ ذیابیطس مریضوں کو حامل ملک بن چکے ہیں۔ہمارے ملک کے افراد کی جینیات یورپ اور امریکہ کے افراد سے مختلف ہیں۔اس لیے ہمارے اندر ذیابیطس کا خطرہ بھی ان کے مقابلے میں ذیادہ ہے۔جبکہ مغربی تحقیق ادویات، خوراک اور طریقہ علاج بھی مقامی ماحول اور جینیات کے مطابق ہونا چاہیئے۔
انہوں نے کہا ذیابیطس سنٹر مریضوں کو مغرب سے بہترعلاج معالجہ کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔یہاں مریض کو علاج کے ساتھ ساتھ ذیابیطس سے متعلق مکمل آگاہی اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔سنٹر کے مریض معاشرے میں دیگر مریضوں کو طرز زندگی سے متعلق راہنمائی کرتے ہیں۔یہ سنٹر بہت جلد گاوں کی سطح پر میڈیکل کمیپ لگانے، ٹیلی میڈیسن اور موبائل اسپتال کے زریعے ملک بھر میں ذیابیطس کے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے گا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد علی خان نے کہا طرز زندگی کی تبدیلی، کاربو ہائیڈریٹس کااستعمال ترک کرنا، ورزش کی عادت اپنانا، باقاعدگی سے ادویات کا استعمال کرنا،ذیابیطس کے مریض کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ملک میں 33 ملین لوگ ذیابیطس میں مبتلا ہیں۔ذیابیطس اندھے پن کی بڑی وجہ ہے۔جبکہ دل کے دورے سے جاں بحق ہونے والے افراد میں 60 فیصد مریض بھی ذیابیطس کے نتیجے میں دل کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ذیابیطس پر مغربی ریسرچ مقامی ذیابیطس سے مختلف ہے۔ مقامی سطح پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ عالاقائی اور موروثی جینات کے باعث پاکستانی افراد جہاں بھی جائیں اپنے ساتھ ذیابیطس کے خطرہ لے کر ہی جاتے ہیں
چئیرمین شفا انٹر نیشنل اسپتال ڈاکٹر محمد اقبال اقبال نے خطاب کرتے ہوئے کہا امریکہ میں اور یورپ میں ہر دسواں شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے۔جبکہ پاکستان میں ہر چوتھا شخص ذیابیطس کی بیماری میں مبتلا ہے۔جو کہ ملک بھر میں صحت کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ جس کا حل صرف علاج نہیں بلکہ طرز زندگی کی تبدیلی لازم ہے۔ ملک میں ریسرچ اور ایجادات کا ٹیلنٹ موجود ہے۔ہمارا مقامی سطح پر بنایا گیا وینٹی لیٹر بین الاقوامی ٹرائل پاس کر چکا ہے۔اورمقامی فیوژن پمپ ٹرائل کے سٹیج پر ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے ایک ذیابیطس سنٹر کافی نہیں ہے۔عوام، حکومت نجی اداروں اور دیگر شعبوں کو ذیابیطس کے لیے مشترکہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک میں کورونا کی طرز پر بیماریوں کی رجسٹری کی جانی چاہیے تا کہ ملک بھر میں ہر بیماری کے مریضوں کی تعداد اور ڈیٹا موجود ہونا چاہیے۔
ڈیٹا نہ ہونے کے باعث مریضوں کی تعداد سے متعلق صرف اندازے ہی بنائے جاتے ہیں۔