فیصل کریم کنڈی کی بطور گورنر تقرری پر خیبر پختون خواہ کے پیپلز پارٹی کارکنوں نے شدیدی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔پارٹی قیادت کی طرف سے کنڈی کو گورنر کے عہدے کے لیے نامزد کرنے کے فیصلے پر بابو سر ٹاپ سے لے کر ڈی آئی خان تک صوبے بھر میں بڑی تعداد میں کارکنوں نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے۔
سوات کے شمس الرحمان نے سی این این اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے کنڈی کو گورنر بنا دیا گیا۔یعنی پارٹی قیادت نے اس عہدے کے لیے اس شخص کا انتخاب کیا جو گزشہ 16 برس میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں ہارنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کر چکا ہے۔
ڈی آئی خان کے ثنااللہ نے کہا کہ کنڈی کونسلر کا انتخاب بھی جیتنے کے قابل نہیں ہے۔جو کونسلر نہیں بن سکتا اس کو گورنر تعینات کر دیا گیا۔یہ پارٹی قیادت کی طرف سے صوبے کے کارکنوں کے لیے انتہائی منفی پیغام ہے۔
بنوں سے پارٹی کے کارکن سلیم نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کا زوال اس وقت شروع ہوا جب کنڈی کو 2008 میں ڈپٹی سپیکر کا عہدہ دیا گیا۔یہ کنڈی کی صوبائی تنظیم میں مداخلت کا نتیجہ ہے کہ آج صوبے میں پارٹی دفن ہو چکی ہے۔
مانسہرہ سے پیپلز پارٹی کے کارکن فاروق احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کنڈی نے پارٹی کی صوبائی تنظیم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔صوبائی عہدے دار گزشتہ 5 سال میں صرف 12 دن کے لیے منظر عام پر آۓ جب فروری میں بلاول بھٹو انتخابی مہم کے لیے صوبے میں موجود تھے۔
ڈی آئی خان کے محمد حمزہ نے کہا کہ کنڈی اپنے حلقہ انتخاب میں انتخابی مہم کے لیے 10 دن کے لیے تشریف نہیں لائے۔ ان کو اپنی شکست پر مکمل ایمان تھا۔کنڈی نے فروری کی انتخابی مہم کے دوران اپنے حلقہ میں اتنے دن بھی قیام نہیں کیا جتنے دن بلاول بھٹو صوبے میں موجود تھے۔
پشاور کے میر عالم نے کنڈی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح کنڈی نے پیپلز پارٹی خیبر پختون خواہ کےمعاملات کو ہائی جیک کر کے پارٹی کو معذور کر دیا ہے اس طرح کسی دوسرے صوبے میں مداخلت کرتے تو وہاں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔مگر یہاں تمام صوبائی عہدوں پر کنڈی کے زومبی ہی براجمان ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گلگت اور کشمیر سمیت دیگر صوبوں میں پارٹی کی کارکردگی نظر آتی ہے۔
چارسدہ کے طارق محمود کا کہنا تھا کہ کنڈی کی گورنر نامزگی کے بعد کارکنوں میں اتنی مایوسی ہے کہ اب اعلی قیادت سے احتجاج کرنے کی بھی توانائی باقی نہیں ہے۔کارکن علیحدگی کے اعلانات کرنے کی بجائے مکمل طور پر پارٹی سے لا تعلق ہو چکے ہیں۔
کرک سے پارٹی کارکن طاہر نے بتایا اب صوبے میں پارٹی کو زرداری اور کنڈی ہی چلا لیں۔ جب کارکن کی اہمیت ہی نہیں ہے تو کارکن اپنا وقت اور توانائی کیوں برباد کرے۔
ایبٹ آباد سے پیپلز پارٹی کے کارکن چن زیب نے کہا گورنر کے عہدے کے صرف 3 اختیارات ہیں ایک سرکاری گھر میں رہنا دوسرا سرکاری گاڑی میں سفر کرنا اور تقریب میں یونیورسٹی کی اسناد تقسیم کرنا۔ اس پر گورنر جلسے کر کے صوبےکے حکمران کو دھمکیاں دیتے ہیں۔انہوں نے کہا پارٹی قیادت کو بے اختیار عہدے کے لیے اتنے چھوٹے شخص کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ہری پور کے پارٹی کارکن محمد گلزار نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پارٹی قیادت کا کنڈی کو گورنر بنانے کا فیصلہ مایوس کن ہے۔پارٹی کی صوبائی تنظیم صرف کنڈی کو نظر آتی ہے۔کنڈی کے بنائے ہوۓ صوبائی عہدے دار صرف کنڈی کا عطا کردہ چاۓ پانی پینے میں مشغول ہیں۔
مالاکنڈ کے محمد بشارت نے ردعمل دیتے ہوۓ کہا کہ اعلی قیادت نے کنڈی کو گورنر تعینات کر کے قربانیاں دینے والی پارٹی کو ہی قربان کر دیا ہے۔اور قربان ہونے کے بعد گوشت اور ہڈیاں چبائی جاتی ہیں۔ کنڈی نے گزشتہ 15برس میں پارٹی کو بیلنے میں ڈال رکھا ہے مگر اب اس پارٹی سے مزید جوس نہیں نکلے گا۔یہ آخری قطرہ تھا جو کنڈی نے نچوڑ لیا۔
دیر کے سفیان خان نے کہا کہ کنڈی کے مقابلے میں ڈاکٹر سویرا ہراز درجے بہتر اور بہادر ہے۔ جس نے اقلیتی مذہب سے تعلق رکھنے اور خاتونے کے باوجود مردانہ وار انتخابی معرکہ میں حصہ لیا.کنڈی اپنے حلقہ انتخاب میں قومی اور صوبائی کے علاوہ تحصیل اور ضلع ناظم کے انتخابات میں ڈاکٹر سویرا جیسے کارکنوں جتنی ہمت نہیں دکھا سکا۔پارٹی اس غلط فیصلے کا نتیجہ بھگتے گی۔