بیوٹی پارلر فحاشی ہے!!! اسلام آباد پولیس نے افغان حکومت کے احکامات نافذ کر دیئے

تھانہ شالیمار کے سارے عملے کی طرف سے خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی کوشش اور شدید تششدد پر آئی جی اسلام آباد نے صرف ایک اہلکار کو معطل کر دیا۔صبا ناز وڑائچ بیوٹی پارلر کی صارف خاتون نے پولیس کے مظالم کے خلاف سوشل میڈیا پر بلک بلک کر انصاف طلب کیا ہے۔صبا ناز وڑائچ کا کہنا ہے کہ 20 نومبر کو سیکٹر ایف ٹین میں قائم بیوٹی پارلر میں کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے گئی تھی۔ جہاں تھانہ شالیمار کی پولیس نے دھاوہ بول دیا۔پولیس نے بیوٹی پارلر کے کاروبار کو فحاشی کا اڈہ قرار دیتے ہوئے گاہگ اور عملہ کی خواتین کے ہمراہ مجھ پر تشدد کیا۔

انہوں نے کہا پولیس نے مجھے ہتھکڑی لگائی اور فحش گالیاں دیتے ہوئے گھسیٹ کر تھانے لے گئے۔ جہاں مجھ پر تھانے کے عملے نے اجتماعی تشدد کیا۔میرے پاس موجود سامان اور فون وغیرہ چھین لیا۔اور سارے تھانے کے عملے نے اجتماعی جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی۔متاثرہ خاتون صبا ناز وڑائچ نے سوشل میڈیا پر ویڈیو کے زریعے انصاف طلب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی طرح کی دیگر متعدد خواتین پولیس کے ظلم اور بربریت کا شکار ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ آئی سی سی پی او ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے خاتون کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر نوٹس لے لیا ۔جبکہ خاتون کی طرف سے سوشل میڈیا پر انصاف طلب کرنے کی ویڈیو کے بعد ایس ایس پی آپریشن نے متاثرہ خاتون سے ملاقات کی ہے۔متعلقہ تفتیشی افسر کو تحقیقات کے دوران معطل کر دیا گیا۔معاملہ کی انکوائری ڈی پی او صدر کو 24 گھنٹے میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں.

تاہم اسلام آباد پولیس نے بیوٹی پارلرز کو فحاشی کے اڈے قرار دینے کی افغان حکومت کی پالیسی شہر میں نافذ کرنے دیگر بیوٹی پارلرز کے خلاف کاوائیاں کرنے یا نہ کرنے پر کوئی رائے ظاہر نہیں کی جبکہ معطل شدہ اہلکار کا نام اور شناخت بھی ظاہر نہیں کی۔عوامی حلقوں کی طرف سے تھانے کے سارے عملے کی طرف سے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھی گئی خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی کوشش پر صرف ایک اہلکار کو معطل کرنے کے پولیس کے بیان کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔اسلام آباد کے شہریوں طارق محمود، محمد طاہر اور دیگر نے سی این این اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معطل شدہ اہلکار کا نام اور شناخت ظاہر نہ کرنے سے واضح ہے کہ پولیس کی طرف سے واقعہ کی تحقیات میں نیک نیتی نہیں پائی جاتی۔

اپنا تبصرہ لکھیں