پاکستان میں ہر تین میں سے دو خواتین اپنی تولیدی صحت کے فیصلے کرنے کے اختیار سے محروم ہیں:UNFPA

اسلام آباد منگل کے روز UNFPA نے دنیا کی آبادی کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ2025 جاری کی۔جس کے مطابق خواتین اور لڑکیاں اب بھی اپنے بچوں کی تعدادکے بارے میں فیصلہ کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے صرف ایک عورت کو اپنی تولیدی صحت سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔”

بدلتی دنیا میں تولیدی خودمختاری” کے عنوان سے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی رپورٹ 2025 کے مطابق دنیا بھر میں بے شمار جوڑوں کو اپنی مرضی کی فیملی تشکیل دینے میں متعدد سماجی، معاشی اور ثقافتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پاکستان کی 67 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، لیکن نوجوانوں بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے لیے تولیدی خودمختاری ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کی آبادی کے مستقبل میں یہ حقیقت نہایت اہم ہے۔

جاری اعداد و شمار کے مطابق ہر 45 منٹ میں ایک ماں حمل یا زچگی سے متعلق پیچیدگیوں کے باعث جان بحق ہوجاتی ہے۔
اور 15 سے 19 سال کی عمر کی ہر 1000 لڑکیوں میں سے 41 لڑکیاں ماں بن چکی ہوتی ہیں، جبکہ 18 فیصد سے زائد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی ہو جاتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں سے صرف 32 فیصد جدید مانع حمل طریقے استعمال کرتی ہیں، جبکہ 16 فیصد سے زائد خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی سہولت میسر نہیں۔یو این ایف پی اے اور یو گوو کی طرف سے چودہ ممالک کے ایک بین الاقوامی سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک فرد کا خیال ہے کہ اس کے بچوں کی تعداد اس کی مرضی کے مطابق نہیں ہوگی۔ اس کی بڑی وجوہات میں معاشی دباؤ، روزگار کی غیر یقینی صورتحال، رہائش کے مسائل، دنیا کی حالت پر خدشات، اور موزوں شریکِ حیات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ
50 فیصد سے زائد افراد نے بچوں کی پیدائش میں معاشی مسائل کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔اور ہر پانچ میں سے ایک فرد کا خیال تھا کہ انہیں ایسے وقت پر بچوں کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جب وہ خود ایسا نہیں چاہتے تھے۔
اسی طرح ہر تین میں سے ایک فرد نے غیر ارادی حمل کا سامنا کیا۔ جبکہ 11فیصد افراد نے کہا کہ بچوں کی پرورش کی غیر مساوی ذمہ داریاں ان کے والدین بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

سروے کے دوران 50 سال سے زائد عمر کے 40 فیصد افراد نے بتایا کہ ان کے بچوں کی تعداد ان کی مرضی کے مطابق نہیں۔پاکستان میں یو این ایف پی کے نمائندہ ڈاکٹر لوائے شبانے نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
کہ”ہر فرد اور ہر جوڑے کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کے بارے میں آزادانہ فیصلے کر سکیں، اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ مناسب نظام اور پالیسیوں کے ذریعے اس فیصلے کو لوگوں کے لیے آسان بنائے۔ آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔تولیدی خودمختاری، معیاری تعلیم، روزگار کے مواقع، اور خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کے ذریعے انسانی سرمائے میں اضافہ پاکستان کے پائیدار مستقبل کی بنیاد بن سکتا ہے “۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی سفارشات کے مطابق
رپورٹ متنبہ کرتی ہے کہ شرحِ پیدائش میں کمی کے لیے بہت سادہ یا شرائط مسلط کرنے والی پالیسیوں سے گریز کیا جائے کیونکہ یہ غیر مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔ اس کے بجائے اقوام متحدہ کا پاپولیشن فنڈ حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ تولیدی صحت کی مکمل سہولیات، سستی رہائش، مناسب روزگار، والدین کی رخصت، اور درست معلومات کی فراہمی کے ذریعے افراد کو بااختیار بنائیں تاکہ وہ اپنی تولیدی صحت کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرسکیں۔

اقوام متحدہ کا پاپولیشن فنڈ معاشروں پر بھی زور دیتا ہے کہ وہ صنفی مساوات میں حائل ان رکاٹوں کا خاتمہ کریں جو اپنی مرضی کی فیملی تشکیل دینے میں حائل ہیں۔ ضروری ہے کہ صنفی مساوات کو فروغ دیا جائے اور خواتین کے فیصلوں کا احترام یقینی بنایا جائے۔
پالیسی ساز وں کو چاہیے کہ وہ ایک جامع اقتصادی، سماجی، اور سیاسی حکمتِ عملی وضع کریں جو ہر فرد کو اپنی مرضی سے خاندان بنانے کے قابل بنائے۔اقوام متحدہ کا پاپولیش فنڈ یقین دہانی کراتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر ان چیلنجز کو سمجھنے اور ایسی پالیسیاں وضع کرنے میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا جو ہر فرد کے حقوق، آزادی اور انتخاب کو مقدم رکھیں۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں