ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ صرف ایک خودمختار ریاست کی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی نہیں، بلکہ یہ پوری مسلم دنیا کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ ایک ناجائز اور غاصب ریاست دوسرے ملک کے سفارتی مشن پر میزائل گراتی ہے، اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ وہی دنیا جو ہر وقت عالمی قوانین، انسانی حقوق اور بین الاقوامی ضابطوں کی بات کرتی ہے۔ لیکن جب ظالم اسرائیل قانون توڑتا ہے، سفارتی آداب پامال کرتا ہے، اور انسانی خون بہاتا ہے، تو عالمی برادری کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
جب بھی مسلمانوں پر ظلم ہوا، ہم نے مظلوم کو ہی قصوروار ٹھہرایا۔ فلسطین پر حملہ ہوا، تو کہا گیا کہ یہ سب حماس کی وجہ سے ہوا۔ سوال اٹھایا گیا کہ حماس نے حملہ کیوں کیا؟ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں کیوں بیچیں؟ حالانکہ یہ بھی ایک عالمی سازش کا حصہ ہے۔ گویا ایک قوم پر نسلوں سے ظلم ہوتا رہے اور ہم اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑکیں۔ ہم نہ کشمیریوں کی آواز بن سکے، نہ یمن و شام کے مظلوموں کے، اور اب تو ایران پر بھی اسرائیل حملہ آور ہوا، لیکن وہی مسلم حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
جب اسرائیل مظالم ڈھاتا ہے، تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے والا شیعہ ہے یا سنی، دیوبندی ہے یا بریلوی، شافعی ہے یا حنفی۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، اور اسی پر ظلم کرتا ہے۔ لیکن افسوس، ہم جب بھی آواز بلند کرتے ہیں، پہلے مسلک و فرقے کے ترازو میں تولتے ہیں۔
حالیہ ایرانی حملے میں غالباً ۷۸ شہید اور ۳۲۹ زخمی ہوئے ہیں۔ اس کھلی عالمی دہشت گردی پر سب کیوں خاموش ہیں؟ مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموشی، جنگی جرائم پر خاموشی، بین الاقوامی قوانین کیوں حرکت میں نہیں آتے؟ اقوام متحدہ کیوں بےحس ہے؟ کیا یہ قوانین صرف کتابوں کی زینت ہیں؟ کیا واقعی یہ ادارے انصاف کے لیے بنے ہیں یا صرف طاقتور کے مفاد کے محافظ ہیں؟ یہ سب سوالات محض کاغذوں میں دفن ہو جاتے ہیں، کیونکہ مظلوم مسلمان ہیں اور ظالم اسرائیلی۔
ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ جب نبی اکرم ﷺ کے دور میں کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کیے، تو مدینہ نے اُن مظلوموں کو پناہ دی، اُن کا ساتھ دیا، اور ظلم کے خلاف عملی قدم اٹھایا۔ آج ہم ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں، ہمارے سامنے نبی ﷺ کی زندگی موجود ہے، جو ہر مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ لیکن ہمارے اندر ایمانی قوت نہیں رہی کہ ہم ظلم کے خلاف ایک قدم بھی آگے بڑھ سکیں۔ یہی بے حسی اور خاموشی ہی ہے جو ظالم کو مزید مضبوط اور مظلوم کو مزید تنہا کرتی جا رہی ہے۔
اسرائیل صرف زمین پر قبضہ نہیں کرتا، وہ دلوں، دماغوں اور ضمیروں پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مسلمان اپنی شناخت، اپنی غیرت اور اپنے نظریے سے دستبردار ہو جائے۔ اس کی دہشت گردی صرف جسمانی نہیں، بلکہ نظریاتی بھی ہے۔ وہ ہمیں فرقوں میں بانٹتا ہے، ہمارے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے، اور ہم دشمن کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آج ایران خاموش ہو جائے، اگر کل لبنان ہتھیار ڈال دے، اگر فلسطینی مزاحمت ترک کر دیں، تو کیا اسرائیل رک جائے گا؟ نہیں! اس کے بعد وہ کسی اور مسلم ملک کو نشانہ بنائے گا، پھر کسی اور کو، یہاں تک کہ ہر وہ آواز جو حق کی بات کرے، ہر وہ وجود جو اسلام کا علم بلند کرے، وہ اسرائیل کا اگلا ہدف بنے گا۔ اسرائیل کا منصوبہ صرف زمینوں پر قبضہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے وجود اور وحدت کو مٹا دینا ہے۔
ہمیں اب یہ سمجھنا ہوگا کہ خاموشی جرم ہے۔ صرف دعا کافی نہیں، صرف احتجاج ناکافی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں، میڈیا، خطبوں، سیاست اور سفارتی پلیٹ فارمز پر کھل کر بات کرنی ہوگی۔ ہمیں ظالم کو ظالم کہنا ہوگا، مظلوم مسلمانوں کا عملی ساتھ دینا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر فرقہ واریت کو ختم کر کے امت بننا ہوگا۔
امتِ مسلمہ کی آنکھیں اب بھی بند ہیں۔ لیکن یاد رکھیں! اگر آج ہم نہ جاگے، تو کل جب ہمارے دروازے پر بھی وہی آگ لگے گی، تو نہ کوئی ایران، نہ کوئی فلسطین اور نہ کوئی لبنان ہمارے لیے آواز اٹھانے کہ لیے موجود ہوگا۔
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آرا مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔