امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی صدر شی جن پنگ کو “انتہائی سخت” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر پہنچنا “بہت مشکل” ہوتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے، حالانکہ چند ہفتے قبل دونوں ممالک نے جنیوا میں تجارتی جنگ کو روکنے کے لیے 90 دن کی عارضی صلح پر اتفاق کیا تھا۔
ٹرمپ نے بدھ کی صبح واشنگٹن کے وقت ایک پوسٹ میں اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر لکھا:
“مجھے چین کے صدر شی پسند ہیں، ہمیشہ پسند رہے ہیں اور رہیں گے، لیکن وہ بہت سخت ہیں اور ان کے ساتھ معاہدہ کرنا انتہائی مشکل ہے!!!”
سی این این کے مطابق ، یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ تجارتی مذاکرات تعطل کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ نے چین پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام بھی عائد کیا ہے، جسے بیجنگ نے مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کی بعض پالیسیز ان کے باہمی اتفاق رائے کو “شدید نقصان” پہنچا رہی ہیں۔
ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان ایک طویل عرصے سے متوقع ٹیلیفونک رابطہ اب تک نہیں ہو سکا، حالانکہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بارہا اشارہ دیا گیا ہے کہ یہ کال جلد متوقع ہے۔ ٹرمپ کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے پیر کے روز کہا تھا کہ دونوں رہنما “اس ہفتے” بات چیت کر سکتے ہیں، جبکہ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ جلد ہی دونوں رہنما کسی معاہدے تک پہنچ جائیں گے۔ تاہم چین کی وزارت خارجہ نے منگل کو کہا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایک اور سخت بیان میں چین پر مکمل طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے چین کو “ایک برے انجام سے بچانے” کے لیے “فوری معاہدہ” کیا تھا، اور طنزیہ انداز میں کہا: “تو یہ تھا نائس گائے بننے کا نتیجہ!”
صدر ٹرمپ نے حالیہ مہینوں میں چینی درآمدات پر ٹیرف (محصولات) میں کئی بار اضافہ کیا ہے، جس کا مقصد امریکی صنعت کو فروغ دینا اور نوکریوں کی واپسی کو یقینی بنانا تھا۔ بدھ کے روز امریکی وقت کے مطابق رات 12:01 بجے سے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیرف دگنا کر کے 50 فیصد کر دیا گیا۔ اسی دوران وائٹ ہاؤس دیگر کئی ممالک کے ساتھ تجارتی محصولات پر مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
بدھ کے روز ٹرمپ کا شی جن پنگ سے متعلق بیان بظاہر دوستانہ تھا، اگرچہ اس سے قبل وہ چینی قیادت پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔ اس بیان کے چند گھنٹے بعد بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ ای اور نئے امریکی سفیر ڈیوڈ پرڈیو کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں وانگ نے زور دیا کہ امریکہ چین کے ساتھ تعلقات کو “درست سمت” میں لانے کے لیے کام کرے۔
بیجنگ میں ایک باقاعدہ بریفنگ کے دوران جب ٹرمپ کے بیان پر سوال کیا گیا تو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیان نے کہا:
“چین-امریکہ تعلقات کے فروغ کے لیے چین کا مؤقف اور اصول ہمیشہ یکساں رہے ہیں۔”
جنیوا معاہدے کے بعد چین کی نایاب معدنیات کی برآمدات پر کنٹرول اور امریکہ کی جانب سے چینی ٹیکنالوجی اور طلبہ کو نشانہ بنانے والے اقدامات سے دونوں ممالک میں تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔ نایاب معدنیات جیسے اجزاء نہ صرف اسمارٹ فونز اور الیکٹرک گاڑیوں بلکہ جنگی طیاروں جیسے F-35 اور جدید میزائل سسٹمز کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔
امریکی حکام کو توقع تھی کہ چین ان پابندیوں میں نرمی کرے گا، مگر ایسا نہ ہونے پر ٹرمپ انتظامیہ میں سخت ناراضی پائی جا رہی ہے اور چین پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
دوسری جانب چین نے امریکہ کی جانب سے اپنے قومی ٹیکنالوجی ادارے ہواوے کی مصنوعات استعمال نہ کرنے کی ہدایات، اہم ٹیکنالوجی کی فروخت پر قدغن، اور کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے یا حساس شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طلبہ کے ویزوں کی منسوخی جیسے اقدامات پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔