سگریٹ کی 35% تجارت غیر قانونی ہے حکومت ٹیکس پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے:SDPI

اسلام آباد عالمی یوم انسدادِ تمباکو کے موقع پرجمعہ کے روز نجی تھنک ایس ڈی پی آئی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار سے ڈاکٹر عابد، محمد اصف، ڈاکٹر منہاج اور دیگر نے خطاب کیا۔معاشی ماہرین نے کہا کہ وفاقی و صوبائی محصولات کے ادارے ایک مشترکہ موثر ٹوبیکو کنٹرول اتھارٹی قائم کریں

معاشی، صحت و پالیسی ماہرین نے تمباکو صنعت میں ٹیکس چوری، اور گمراہ کن بیانیے اور حکومتی پالیسیوں میں مداخلت کو بے نقاب کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ وفاقی و صوبائی بجٹ سے قبل تمباکو پر سخت، موثر اور یکساں ٹیکس نظام نافذ کر کے صحت عامہ کا تحفظ اور محصولات میں خاطر خواہ اضافہ یقینی بنایا جائے۔

ایس ڈی پی آئی کے سینئر ریسرچ فیلو سید علی واسف نقوی نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ اس پر فوری اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری تمباکو پر ٹیکس کو نہ صرف آمدن کا ذریعہ بلکہ صحت عامہ کا اہم پہلو قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام کو لوگوں کی آمدنی اور صحت کی کمزوریوں کے مطابق ڈھالا جائے اور ایف بی آر کو اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔

ایس پی ڈی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد آصف اقبال نے پریزنٹیشن میں تمباکو انڈسٹری کے دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں 9,000 سے زیادہ گھرانوں اور 6,600 سگریٹ نوشوں پر مشتمل سروے کے مطابق تمباکو مارکیٹ کا 35 فیصد کاروبار غیر قانونی ہے۔جبکہ انڈسٹری اسے 54 فیصد ظاہر کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ افراطِ زر کی شرح 9.5 فیصد ہونے کے باوجود سگریٹ کی قیمتوں میں صرف 2.7 فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے فی پیک کم از کم 40 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے اور فنانس ایکٹ 2024 پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

ایس ڈی پی آئی کے مشیر وسیم افتخار جنجوعہ نے بتایا کہ پاکستان میں تمباکو پر ٹیکس جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ انہوں نے یکساں ٹیکس نظام، تمام تمباکو مصنوعات پر ہیلتھ لیوی اور ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے سخت نفاذ کی سفارش کی۔انہوں نے ای سگریٹس اور نکوٹین پاوچز سے متعلق پالیسی کی غیر یقینی صورتِ حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔عالمی ادارہ صحت میں تمباکو ٹیکسیشن کے تکنیکی مشیر ڈاکٹر وسیم سلیم نے کہا کہ فروری 2023 سے اب تک فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو مالی سالوں میں قومی خزانے کو 82 ارب روپے کا ممکنہ نقصان پہنچا ہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمباکو پر ٹیکس پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔

تمباکو کنٹرول کی کارکن ثانیہ علی خان نے بتایا کہ ایک سگریٹ کی تیاری میں اوسطاً 3.7 لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے اور یہ صنعت ماحولیاتی آلودگی اور جنگلات کی کٹائی کی بھی ذمہ دار ہے۔سینڈیکیٹ ہیلتھ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر منہاج السراج نے کہا کہ ٹیکسیشن ایک پیچیدہ مگر فیصلہ کن ذریعہ ہے،اس ضمن میں وفاقی و صوبائی محصولات کے اداروں کو تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر ایک موثر ٹوبیکو کنٹرول اتھارٹی قائم کرنی چاہئے۔

وزارت قومی صحت خدمات، ضوابط و ہم آہنگی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شبانہ سلیم نے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزارت ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر کاربند ہے۔وزارت کی اعلیٰ قیادت نے ٹوبیکو کنٹرول سیل کی بحالی پر اتفاق کیا ہے جو کئی برسوں سے غیر فعال ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس ضمن میں جامع تجاویز وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کو ارسال کر دی گئی ہیں۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں