عرب ٹی وی الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع کر دیا ہے۔بس مرحلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے 80 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا امکان ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں اس منصوبے کے پہلے پہلے مرحلے میں تقریباً 541,000 کو جبری طور پر ملک بدر کر دیا گیا تھا۔منصوبے کے تحت اگر غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین رضاکارانہ طور پر نہیں نکلے تو ان کو گرفتاری اور ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وطن واپسی کے منصوبے سے پہلے پاکستانی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں تقریباً 4.4 ملین افغان مہاجرین تھے، جن میں سے ایک اندازے کے مطابق 1.73 ملین غیر دستاویزی اور غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔
الجزیرہ کے مطابق حکومت نے کریک ڈاؤن، سیکورٹی خدشات اور ایک دباو کا شکارمعیشت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔ملک بدری کا حکم پاکستان بھر میں مسلح حملوں میں ڈرامائی اضافے کے دوران آیا ہے، حکومت نے ان حملوں کی ذمہ دار افغانستان میں مقیم گروہوں اور شہریوں کو قرار دیا ہے۔ جبکہ اس الزام کو افغانستان میں طالبان حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی نمائندہ فلیپا کینڈلر نے الجزیرہ کو بتایا کہ پاکستان کو غیر دستاویزی افغانوں کو بے دخل کرنے سے پہلے ان کے پروفائلز کو دیکھنا چاہیے، کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو “بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے۔