پاکستان میں غیر متعدی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ مرتے ہیں، جبکہ روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان دُنیا میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔
اس کے علاوہ 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔اگر فوری پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو خدشہ ہے کہ 2045 تک ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد 62 ملین تک بڑھ جائے گی۔
غیر سرکاری فلاحی تنظیم پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منگل کےروز سیمینار منعقد کیا گیا۔میجر جنرل مسعود الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر ڈیڑھ منٹ میں ایک شخص کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ دیگر غیر متعدی بیماریاں بھی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ اگر ان بیماریوں کے قابل تبدیل خطرے والے عوامل کو کنٹرول کیا جائے تو ان بیماریوں میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔
غیر صحت بخش غذا جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز اور مشروبات کی مصنوعات ان بیماریوں کی بڑی وجوہات ہیں۔ ان میں چینی، سوڈیم اور ٹرانس فیٹس کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ حکومت ان غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرے۔
منور حسین نے کہا کہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ ان مشروبات کی کھپت کو کم کرنے کے لیے پہلا اور سب سے موثر پالیسی آپشن ہے، ”پاکستان میں ذیابیطس کے علاج پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ 2021 میں $2640 تھا جو کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی قسط سے دوگنا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زیابیطس کے 30 فیصد خطرے کی وجہ میٹھے مشروبات اور جوس کا زیادہ استعمال ہے۔
کرنل ڈاکٹر شکیل احمد نے کہا کہ میٹھے مشروبات اور جوسز ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر، گردے کی خرابی اور دیگر دائمی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ پاکستان میں مرتے ہیں، روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہیں۔
پاکستان میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی ذیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ حکومت کو جنگی بنیادوں پر اس سے نمٹنا چاہیے اور ان بیماریوں کے قابل تبدیل خطرے والے عوامل پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔