تحریر: ارتضیٰ حسن
پنجاب کے ثقافتی رنگوں کو دوام دینے کے لیے پنجاب کے ثقافتی ادارے بہت محنت کر رہے ہیں جو روایت پنجاب ا ٓرٹس کونسل نے قائم کر رکھی ہے اس میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔ خوبصورت پروگرام ثقافتی ترویج کی پالیسی ، زبان سے محبت، فنکاروں لکھاریوں کی داد و تحسین عرصہ سے اس ادارے کا خاصہ رہی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کیسے کیسے ہیرے اس ادارے سے وابستہ رہے۔ لاہور آرٹس کونسل اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز آرٹ اینڈ کلچر اصل میں اس کی ذیلی شاخیں ہیں اور باپ ہمیشہ اپنے بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ حاسدین نے اپنا منہ تک ان اداروں کو رسوا کرنے کے لیے کالا کیا مگر بڑا نظریہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ پنجاب آرٹس کونسل اس نظریے کا نام ہے جہاں اس کے زیر سایہ آنے والا بادشاہ ہو یا غریب ایک ہی صف میں کھڑا ہوتا ہے۔ ادارے کی عمارت میں داخل ہوتے ہی آپ کو ایسی تروتازگی کا احساس ہوتا ہے کئی ضرب المثال سمٹ کر انسانی تطہیر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پنجاب آرٹس کونسل کوئی معمولی ادارہ نہیں اوراس سے وابستہ ذہین، فطین افسران اس عہد کا اثاثہ ہیں۔ امجد اسلام امجد ہوں ، یاسمین شاہد ہوں، روحی بانو ہوں، صوفیہ بیدار ہوں، استاد بدر الزماں اور استاد قمر الزماں ہوں، سب کے سب محبتوں کا گلدستہ ہیں۔ خالی جیب ہو کر بھی اس ادارے کے ہر افسر نے اپنا گھر بار تک اس ادارے کی ترویج کے لیے بیچ دیا۔ خال خال ہی افسر ایسا ہے جس کا اپنا گھر اس ادارے سے محبت میں سلامت رہا ہوں۔ یوں تو کئی متنوع ادوار اس ادارے کے دیکھے ہیں مگر انتظامی بنیادوں پر سید بلال حیدر کا دور ایک شاہکار دور ہے۔ ادارہ گندھارا، ساندل بار، گنجی بار کے ثقافتی پروگرام کر کے ابھی انگڑائی بھی نہ لے پایا تھا کہ ایک انتھک افسر نے اس کی الگ سے بنیاد رکھی۔ دن رات محنت اپنی جملہ ٹیم کے ساتھ خوبصورت انسانی برتاؤ اور اپنے دفتر میں آنے والے مہمان کی قدر کرتے ہوئے خود اسے گیٹ تک رخصت کرنے کی روایت ڈاکٹر سید بلال حیدر نے قائم کی۔ کہنے والے تو آصف پرویز ، ثمن رائے، ابرار عالم اور محبوب عالم کو بھی جہان دیدہ افسر تصور کرتے ہیں مگر جو کام ڈاکٹر سید بلال حیدر نے کیے ایسا لگتا ہے کہ درج بالا افسران نے اپنے لمبے ادوار میں بھی نا چاہتے ہوئے ان مسائل کی طرف توجہ ڈالی۔ ملتان آرٹس کونسل سے چمگادڑوں کے افزائشی یونٹ ختم کرنے کا اصل سہرا بلال حیدر اور ڈاکٹر ریاض ہمدانی کے سر جاتا ہے۔ برق رفتاری کے ساتھ آئے روز ڈویژنل آرٹس کونسل کا دورہ ڈاکٹر صاحب کا خاصا رہا ہے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب انسانوں کے ڈاکٹر ہیں لیکن کاش یہ ثقافت کے ہی ہو رہتے۔ ڈاکٹر صاحب فی زمانہ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے طبقے کا حصہ ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ طبقاتی طور پر دنیا اور آخرت میں بھی بڑے طبقے کا حصہ ہیں۔ افسران کی عیب پوشی کرنے میں جو ملکہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں پھر چاہے فیصل آباد سے تھیٹر بد انتظامی کی وجہ سے افسر کا نکالا جانا ہو یا پھر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے کو شیروں کے چنگل سے چھڑانا ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے ہوتے ہوئے جو سب سے خوبصورت بات انتظامی طور پر نظر آئی وہ دوران ملازمت خواتین کا تحفظ ہے۔ اس حوالے سے کمال دور اندیشی سے معاملات کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان میں سدھار بھی لے کر آئے۔ ماہر نباض اور نفسیات دان کی طرح بڑھتی ہوئی الزام تراشی کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اور پھر اس میں سے افسران کو کیسے راستہ دینا ہے یہ خوبصورت عہد اسی خوبصورت آدمی کی مرہون منت ہے۔ یوں تو ثمن رائے کے دور میں بھی ثقافتی رنگ نمایاں تھا۔ بڑی بہنوں کی طرح نا صرف ادارے کے معاملات کو سدھارا بلکہ افسران کی شخصیت میں بھی سدھار پیدا کیا۔ چھوٹے ملازمین کا احساس اس قدر تھا کہ کوئی بھی ملازم نظر آنے پر اپنی گاڑی روک کر اس کی بات سن کر ان کی تکالیف کا ازالہ کرتیں۔ ابرار عالم اور آصف پرویز چوں کہ اسی ادارے کے سپوت تھے تو ان کے دور میں ملازمین کے لیے ان کے دورازے کھلے ہی رہے جب کہ صوفی منش ، درویش محبوب عالم نے نہ کسی کا برا کیا اور نہ ہی کسی کا حد سے بڑھ کر بھلا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ڈاکٹر سید بلال حیدر کے عہد میں ثقافت کی سوچ لیے زندہ ہیں وگرنہ ہم نے بھی ہوتے تو ڈاکٹر بلال حیدر ثقافت کو وہاں لے جاتے جہاں ہمارے پَر جلتے۔ وقت کی پابندی ، جملوں میں برجستگی اور ملازمین کے لیے دل کھول کر خرچ کرنا بلال حیدر پر ختم ہے۔ ہر ملاقاتی کے لیے چاشنی کی برفی، جلال سنز کے بسکٹ اور کافی ہر وقت حاضر ہے۔ یقین نہیں آتا تو رمضان کے فوری بعد کسی روز بھی ملاقات کے لیے چلے جائیے آپ کو اس سے بڑھ کر تواضع پورے پنجاب میں کہیں نہیں ملے گی۔ یوں تو ہر افسر ہی اپنی سوچ سے پھوٹے اپنے اَئیڈیے پر پہلا کا لفظ لگانا نہیں بھولتا مگر بلال حیدر نے درحقیقت پہلی پنجاب آرٹ اینڈ کلچر ایکسپو کا میلہ سجایا تو اس نے کمال دانائی سے کام چور افسروں سے بھی کام لیا۔ کیا خوبصورت پنڈال تھا، کوئی چار سے پانچ لاکھ لوگوں نے اس ایکسپو میں شرکت کی۔ آئے روز کوئی ادیب یا بڑا بیوروکریٹ وہاں پر اپنی پی آر کے لیے مدعو نہیں کیا جاتا تھا بلکہ عوام کو بتانا تھا کہ یہ لوگ بھی آپ کی دسترس میں ہیں اور یہ بھی عوامی نمائندے ہیں۔ ساندل بار کے علاقے میں ہڑپائی تہذیب کو چونا لگانے والے نے چوراہا نام کی مزاحمتی آواز کو بھی مدعو کر رکھا تھا ۔ ادیب ، شاعر، کالم نگار میلے میں عوام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اپنے ہیرو بلال حیدر سے ملاقات سے محروم رہے۔ وہی بلال حیدر جس نے پہلی بار بورڈ آف گورنرز کے ممبران کے لیے اعزازیے کا اجرا کیا اور عرصہ سے فن کی خدمت کرنے والے ان ممبران کی کسمپرسی کو دیکھتے ہوئے آرٹس کونسل کی خون پسینے کی کمائی سے پیسوں کا اجرا کیا۔ اعزازیے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ہر ممبر نے میٹنگ میں آنے کو اپنے لیے اعزاز خیال کیا اور اس طرح بے ہوش کیے بغیر ہمارے معاشرے کی سماجی اور فنونی قدروں کا آپریشن کر ڈالا۔ سید بلال حیدر تیری عظمت اور مہارت کو سلام۔ ابھی بھی پہلا پنجاب مصوری ، ڈرامہ اور موسیقی مقابلہ جات جاری ہیں۔ عید کے فوری بعد موسیقی کے سُروں سے ماحول کو نئی سانسیں بخشتے ہوئے سماجی اور عوامی سطح پر مست کیا جائے گا۔ صحافیوں کی جو قدر بلال حیدر کے عہد میں ہوئی اس کے لیے آئے روز میڈیا ٹاک اور سوالات و جوابات کی نشستیں اپنی تاریخی افادیت خود بیان کریں گی۔ اس وقت اگر پلاک پنجابی ثقافت کا عَلم بلند کیے ہوئے ہے تو لاہور آرٹس کونسل میں دی گئی سہولتیں عوام کو اپنی طرف مبذول کرواتی ہیں لیکن یہ سب دَین پنجاب آرٹس کونسل کی ہے اور یہ عہد ثقافت اور اس سے وابستہ لوگوں کے لیے شاندار عہد ہے جہاں ثقافت کو وزیروں کی بیٹھکوں سے نکال کر سید بلال حیدر چوراہے میں لے آیا ہے۔ آرٹس کونسل کے ملازموں تمہیں اپنے مسائل کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے ؟اور اعجاز شاہ ! تم کیا آئے روز عدالتوں کے چکر لگاتے ہو، تمہیں تو غنیمت جانتے ہوئے فخر کرنا چاہیے کہ تم اور تمہاری ثقافت راجہ بلال حیدر کے عہد میں زندہ ہے۔ یک لخت عالم ِ ارواح سے آواز آتی ہے ۔۔۔ بلال حیدر زندہ باد