ترجمان اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ ایمان مزاری کے حوالے سے افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ملزمان کے ریمانڈ اور حوالات کے دوران تفتیش کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ملزمان کو طبی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں اور سرکاری ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں۔
خوراک اور دیگر اشیاء سرکاری طریقہ کار کے مطابق مہیا کی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا دوران حراست اور ریمانڈ ملزمان کو من پسند سہولیات مہیا نہیں کی جا سکتی۔
واضح رہے پولیس بیان سے قبل پی ٹی ایم راہنما علی وزیر اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان مزاری کا تین روزہ ریمانڈ منظور کر کے پولیس کی تحویل میں دینے کا حکم دیا ہے۔انسداد دیشت گردی عدالت نے دونوں ملزمان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظورکیا۔
پیر کے روزجج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام کو ان کے خلاف اکسانے جیسے الزامات کے تحت درج مقدمات کی سماعت کی۔اس موقع پر استغاثہ کی جانب سے ملزمان کے دس روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
علی وزیر اور ایمان مزاری کو اسلام آباد کے علاقے ترنول میں جمعے کی شب پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے جلسے میں شرکت اور تقریر کے بعد اتوار کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ایمان مزاری کے خلاف تھانہ ترنول میں ریاستی اداروں کے خلاف بیان دینے اور لوگوں کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں الزام ہے کہ منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کی دیگر قیادت کے ساتھ مل کر لوگوں کو بغاوت، خانہ جنگی، سول نافرمانی اور مسلح جدوجہد کی ترغیب دی۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت کے موقع پر ایمان مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے جسمانی ریمانڈ کے خلاف دلائل دیئے۔انہوں نےکہا میری موکلہ کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہہلےہی پولیس کی تحویل میں ہے۔
جبکہ استغاثہ کے وکیل راجہ نوید نے کمرہ عدالت میں ایمان مزاری کی جلسے میں کی گئی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھا اور کہا کہ انھوں نے ریاست کے خلاف تقریریں کی ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایمان مزاری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’اصل دہشت گرد جی ایچ کیومیں بیٹھے ہیں اور یہ نعرہ لگایا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔’
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ایمان مزاری کے خلاف پہلے بھی اسی نوعیت کا مقدمہ درج ہوا تھا تاہم ان کی جانب سے غیر مشروط معافی کے بعد وہ کیس ختم کیا گیا تھا۔