بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعہ کے روز نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ’جے شنکر ایس سی او اجلاس میں بھارتی وفد کی سربراہی کریں گے، یہ اجلاس اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہو گا۔
پاکستان نے انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی جبکہ انڈیا کی طرف سے ردعمل میں وزیرخارجہ کی اجلاس میں شرکت کا اعلان کیا گیا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں چین اور روس نے رکھی تھی جس کے اراکین میں اب قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں۔ یہ تنظیم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد کا ایک فورم ہے۔پاکستان 2005 سے 2017 تک اس تنظیم کا آبزرور رکن رہا۔جبکہ جولائی 2017میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا.
انڈین وزیر خارجہ 9 سال بعد پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔8 دسمبر 2015 کو انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسلام آباد میں افغانستان پر منعقدہ سیکورٹی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ اور پاکستانی حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
کیا جے شنکر کانفرنس تک محدود رہیں گے؟:
انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کانفرنس کے موقع پر کیا کانفرنس کی سرگرمیوں کے علاوہ پاکستانی حکام سے بات چیت کریں گے یا نہیں یہ واضح نہیں ہے۔قبل ازوقت کوئی ایسی اطلاعات دستیاب نہیں ہیں۔تاہم بعض ماہرین کے مطابق بھارت اسلام آباد کانفرنس میں شرکت کیلئے آمادہ ہوا ہے تو پاکستانی ذمہ داران سے ملاقاتیں ہونے کا امکان ہے۔
جے شنکر کو ڈی چوک دھرنے میں شرکت کی دعوت: خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پی ٹی آئی کے ڈی چوک کے احتجاج میں شرکت اور کارکنوں سے خطاب کی دعوت دے دی۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ ہم جے شنکر کو دعوت دیں گے کہ وہ بھی ہمارے احتجاج میں شرکت کریں اور ہمارے کارکنوں سے خطاب کریں، اور دیکھیں پاکستان کی جمہوریت کتنی مضبوط ہے جہاں ہر کسی کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔
پاک انڈیا تعلقات میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم کردار* : پاک بھارت تعلقات میں تلخیوں کے باعث 2014 کے بعد کوئی بھی پاکستانی رہنما انڈیا کے سرکاری دورے پر نہیں گیا تھا۔جبکہ گزشتہ برس اس جمود کو بھارت کے شہر گوا میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس نے توڑا۔جب پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری 9 سال بعد بھارت کے دورے پر گئے۔ اس سے قبل 2014 میں نواز شریف بطور وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
پاکستان اور انڈیا 2017 سے شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل رکن ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں ممبر ممالک کو شرکت کی دعوت دینا میزبان ملک کے فرائض میں شامل ہوتا ہے اس لیے انڈیا کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دینا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔
سنہ 2022 میں سمرقند میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس کے موقع پر توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ شہباز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات ہو گی تاہم ایسا نہیں ہوا تھا.وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 2023 میں العریبیہ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے گوا میں ایس سی او اجلاس میں بلاول بھٹو کی شرکت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔تاہم ان کے دفتر نے اس انٹرویو کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مذاکرات صرف تب ہو سکتے ہیں جب انڈیا اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے جو اگست 2019 میں ختم کر دی گئی تھی۔