اسلام آباد سے 14 سالہ مسیحی بچی کو اغوا کے بعد جبری مذہب کی تبدیلی کی گئی:والدین

پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق ونگ کے صدر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ نابالغ مسیحی بچی کو اغوا کر کے جبری مذہب کی تبدیلی کی گئی ہے۔ میں مسیحی بچی کے والدین کی آواز میں اپنی آواز کو شامل کرتا ہوں۔ ملک کے اندر جبری مذہب کی تبدیلی بڑا سنگین مسلہ ہے۔جو کہ اب راولپنڈی اسلام آباد میں بھی رائج ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ این جی اوز کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں سالانہ ایک ہزار ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں مذہب تبدیل کرنے والی بچی کو مسلمان ہمیشہ بیوی ہی بناتا ہے۔ کبھی مسلمان نے بیسی بچی کو اپنی بہن یا بیٹی نہ بنایا۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مذہب کی تبدیلی کے لیے قانون سازی ہونی چاہئے۔ مذہب تبدیل کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہو کر بیان دینا لازم قرار دیا جائے۔ اور ایسے شخص کو تحفظ کے اندر سوچ بچار کے لیے مزید وقت فراہم کیا جائے۔ ملک بھر میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو یکساں کیا جاۓ اور خلاف ورزی کرنے پر سزا ہونی چاہئے ۔

غیر سرکاری تنظیم راہ نجات منسٹری نے ہفتہ کے روز نیشنل پریس کلب میں مغوی مسیحی بچی کے والدین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ علینہ مسیح جس کی عمر 14 سال ہے کو گھر سے اغوا کیا گیا۔واقعہ کا پرچہ تھانہ کھنہ میں درج ہوا۔

علینہ کو اغواہ کے بعد راولپنڈی لے جا کر 25 جون کو اسلام قبول کر وایا گیا اور حیدر نامی شخص سے شادی کر دی گئی ۔ علیہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے کہنے پر 28 جولائی کو بازیاب کروایا گیا اور 2 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کرنے کے بعد چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹیوٹ میں بھیج دیا گیا۔

ملزموں نے علینہ مسیح کی ہڈیوں کا ٹیسٹ کروایا جس میں اس کی عمر 17 سے 22 سال بتائی گئی۔ اس رپورٹ کو والدین کی طرف سے چیلنج کیا گیا اور ڈاکٹرز کے بورڈ نے علینہ کی عمر 15 سے 17 سال بتائی جبکہ نادرا کے “ب “فارم کے مطابق بچی کی تاریخ پیدائش 13.03.2010 ہے۔

10 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 2635 ڈالی گئی کہ بچی کو والدین کے حوالے کیا جائے ۔ 12 ستمبر کونوٹس جاری ہوئے۔اور آئندہ تاریخ سماعت 18 ستمبر ڈالی گئی ۔ 18 ستمبر کو جب والدین بچی کی حوالگی کے لئے پیش ہوئے تو پتہ چلا کہ ملزمان نے 13 ستمبر کو بھی۔

دفعہ 30 کے مجسٹریٹ کے حکم چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹیوٹ سے لے گئے۔ جس پر آئندہ تاریخ سماعت 12 اکتو بر مقرر کی گئی۔بچی کے والدین کا کہنا ہے کہ بچی کی عمر 14 سال ہے اس لیے بچی بازیاب کروا کر ہمارے حوالے کی جائے۔

انسانی حقوق کی سرگرم رکن رومانہ بشیر نے کہا کہ اقلیتوں کی بچیوں کا نادرا میں اندراج کروانا بند کروا دیا جائے۔ ان کی پیدایش سرٹیفیکیٹ بنانے کا عمل ختم کر دیا جاۓ۔مسیحیوں کی بچیوں کی پیدائش کا چرچ میں ریکاررڈ لکھنا بند کر دیا جائے۔ کیونکہ عدالت نے مسیحی بچی کی یہ تمام دستاویزات مسترد کرتے ہوئے میڈیکل ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

رومانہ بشیر نے کہا کہ نکاح خواں کے پاس جادو کی چھڑی ہے جو ایک رات میں غیر مسلم بچیوں کی عمر میں برسوں کا اضافہ کر دیتا ہے.اس جرم اسٹامپ پیپر جاری کرنے والا۔ میڈیکل ٹیسٹ کرنے والا نکاح خواں جج پولیس اور دیگر سب ملزم کے ساتھ معاون بن چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں