افتخار چوہدری نے زبردستی کر کے آئین میں 19 ویں ترمیم کروائی جسٹس اطہر من اللہ

منگل کے روز نیو یارک سٹی بار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سپریم کورٹ کے جج اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائبرڈ نظام حکومت اور جمہوری نظامِ حکومت میں عدلیہ کی آزادی کا الگ الگ تصور ہے۔

ججوں کی تعیناتی میں مجھے ایک جج کو منانے میں تین اور دوسرے جج کو منانے میں دو سال لگے۔ان ججوں پر کسی کو اعتراض نہ تھا مگر پورا نظام اِن سے خوفزدہ تھا اور حتی کہ وزیر اعظم بھی ان ججوں کی تعیناتی کی مزاحمت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔

انہوں نے کہا جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔2022ء میں جو میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے تھے اب وہ دوسری طرف کھڑے ہیں،

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ‏صدر (آصف زرداری) کیخلاف (سوئس حکام کو) خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم (یوسف رضا گیلانی) کو عہدے سے ہٹانا غلط تھا کیونکہ صدر کو آئینی استثنی حاصل تھا۔

انہوں نے کہا 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جب آرمی ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا تو میرے ساتھی جسٹس یحیی آفریدی کے مشورے پر ہم نے حبسِ بیجا کی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور ہمارے وکیل جسٹس منصور علی شاہ تھے، رجسٹرار نے 12 اعتراضات لگائے اور پھر وہ درخواست کبھی نہیں لگی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس وقت تمام ججز کو معلوم تھا کہ اُنکے چیف جسٹس گھر میں نظر بند ہیں مگر کسی نے وہ درخواست نہیں سنی۔

انہوں نے بتایا کہ 18ویں ترمیم پاکستان کے لئیے بہترین تھی مگر اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اِسے عدلیہ کی آزادی مخالف قرار دیا۔اور پارلیمنٹ سے زبردستی 19ویں ترمیم کروائی اور یہ سب وکلا تحریک کے اصولوں کے منافی تھا۔وکلا تحریک کے بحال ہونے والے ججوں نے نوجوان نسل کو بہت مایوس کیا، جسٹس ۔یہ ججوں کی بحالی کی نہیں آئین کی بحالی کی تحریک تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میمو گیٹ کیس اِس قابل نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس پر سماعت کرتی، وزرا اعظم کو تاحیات نا اہل کیا گیا اور عہدے سے برطرف کیا گیا، وکلا تحریک اس مقصد کے لئیے نہیں تھی۔

انہوں نے کہا چڑیا گھر کے ہاتھی، ایک ریچھ اور آوارہ کتوں سے متعلق کیس بھی سنے۔جنرل ضیا الحق کی خصوصی صلاحیتوں کی حامل بیٹی کی خواہش پر سری لنکا کی ریاست نے ایک ہتھنی سے اُسکا ایک سال کا بچہ چھین کر ریاست پاکستان کے حوالے کر دیا۔اور اُسے ایوان صدر کے عقبی صحن میں چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اُسکے لئیے اسلام آباد میں چڑیا گھر کی بنیاد رکھی گئی۔

سپریم کورٹ کے پاس غیر آئینی اقدامات یا آئین کی پامالی کو تحفظ دینے کا کوئی اختیار کبھی نہیں رہا اور اگر ججز ایسا کرتے ہیں تو یہ اُنکے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔

بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ 9 اپریل کی رات کو عدالت کھولنے کی وجہ یہ تھی کی ARY نیوز پر مارشل لأ لگانے کی باتیں کی جا رہی تھی۔اور جب ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہئیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ ایک آئینی عدالت ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ 24 گھنٹے کھلی رہے۔ اب اُس رات کیا ہوا، میں گھر میں تھا، مجھے بتایا گیا ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں لوگ پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں، پھر اُنہوں نے مجھے بتایا کہ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون پٹیشن فائل کرنا چاہتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ‏ کہا کہ اسٹاف کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاکر پٹیشن لے آئے، جب میں نے وہ پٹیشن دیکھی تو وہ بالکل مضحکہ خیز تھیں، میں نے حکم جاری نہیں کیا، ایک سیاسی بیانیہ بنا دیا کہ عدالتیں کیوں کھل گئیں، میں آپ کو بتاتا ہوں، اُس وقت ٹی وی پر کیا کہا جا رہا تھا، اُنہوں نے ایسی صورتحال پیدا کر دی جیسے مارشل لاء لگ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ جب بھی مارشل لاء کا خطرہ ہو عدالتیں کھلی رہنی چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں