” کہہ دو بھلا دیکھو تو اگر ہوجائے تمہارا پانی خشک تو کون ہے (اللہ کہ سوا) جو لے آئے تمہارے لیے پانی کا شفاف چشمہ”
(سورة ملک آیت ٣٠)
سن 2018 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت برائے قانون سازی کیپ ٹاؤن میں نلوں سے پانی آنا جب بند ہوا تو ساری دنیا نے انسانیت کی قوت و جاہ و جلال کا منظر دیکھا کہ جو دنیا 70 فیصد پانی میں گھری ہوئی ہے وہاں کیسے استعمال اور پینے کا پانی کس طرح ناپید ہورہا ہے، جبکہ مصحف خدا میں یہ واضح تنبیہ ہے کہ اگر ہم تمہارا پانی ختم کردیں تو کون اسے لوٹا کر دے گا۔
اب اس صورت میں اگر دیکھا جائے تو کیا ہمارے رویے دنیا کے حصوں میں خشک سالی دیکھ کر بدلے ہیں؟ یا اللہ سبحان و تعالیٰ کی تنبیہ سے بدلے ہیں؟ تو اس پر جواب صرف یہی ہے کہ ہرگز نہیں سب اسی انداز سے جاری و ساری ہے۔
ڈویلپمنٹ آف سٹیز ایکٹ 1976 میں اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ کاروباری مقاصد کے لیے بغیر لائسنس کے ٹیوب ویل لگانا ایک قابل سزا جرم ہے جس کی سزا ایک سال تک ہوسکتی ہے مگر کیا کمال کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس بات کا تصور ہی نہیں ہے کہ کہاں کس کی اجازت درکار ہے نل کو نصب کرنے میں، اور نہ ہی یہ روایت ہے کہ سرکار کوئی کاروائی عمل میں لا کر کچھ قوانین پر عمل درآمد کراوائے۔
ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق پنڈی میں روزانہ پانی کی کھپت 51 ملین گیلن ہے اور جبکہ ضرورت 68 ملین گیلن کی ہے یعنی 17 ملین گیلن کی قلت اس وقت درپیش ہے اور ہمارے ملک میں خاطر خوا نہ تو ڈیم بن رہے ہیں اور نہ کوئی اور نظام حفظ برائے آب موجود ہے، ہاں جو ڈیم بن بھی رہے ہیں وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی تاب ہرگز نہ لا پائیں گے اور انجام ویسا ہی ہوگا جیسا اس آیت میں ذکر ہے تو کیا یہ بول کر پانی سے گل چھڑے اڑائے جائیں کہ ایک نہ ایک روز تو ایسا ہونا ہی ہے، ایک روایت کچھ یوں ہے کہ
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کیسا اسراف ہے؟“، انہوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو“
(سنن ابن ماجہ 425)
یہ بات تو بر حق ہے کہ اس کائنات نے ختم تو ہونا ہے پر اس کے اسباب بھی پیدا ہونا ہیں۔ مگر پھر مرنا تو ہے ہی کیوں نہ خود سوزی کر کے مر جایا جائے۔۔۔جیسے کہ حفظ النفس بھی انسان کی اپنی ذمداری ہے ویسے ہی اس سے ملحقہ اشیاء کی پاسداری بھی انسان کا اولین فریضہ ہے۔ ہم اس سے بھاگ نہیں سکتے۔
اب اگر پانی کے استعمال اور اپنے رویوں کو دیکھا جائے تو وہ کچھ یوں ہیں:
1۔ برش کرتے وقت نل کھلا رکھنا۔
2۔ نہاتے وقت بے جا پانی ضائع کرنا۔
3۔ گاڑی دھوتے وقت پانی سے اٹھکیلیاں کرنا۔
4۔ پانی کی ٹینکی بھر جانے پر بھی موٹر کو دیر تک بند نہ کرنا۔
5۔ بے جا فرش اور گلی کی صفائی کے لیے بے دریغ پانی بہانا۔
6۔ آبپاشی کے لیے دقیانوسی طرز زراعت سے ٹیوب ویل کے ذریعے پانی کو ضائع کرنا۔
7۔ نمائش کی خاطر فوارے چلانا۔
ہم من حیث القوم دریاؤں میں بہتے ہوئے میٹھے پانی کو سمندر واصل ہونے سے بھی نہیں بچا سکے، نہ جانے بدلتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہم اپنے گلیشیئرز کے قیمتی ہیرا نما اثاثے اپنی آنکھوں کے سامنے گنوا رہے ہیں جس کی پروا نہ حکمرانوں کو ہے اور نہ ہمیں اور نہ ہی ہم اپنے بچوں کو سکھا رہے ہیں کہ پانی کی کیا قدر و قیمت ہے۔
جسٹس سہیل ناصر صاحب نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے عثمان غنی بنام راولپنڈی میٹروپالیٹن کے پیرا نمبر 18 میں لکھا ہے کہ مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ معزز سپریم کورٹ کی ہدایات، جو قانونی تاکید رکھتی ہیں، انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور کوئی خاطر خواہ مہم کا آغاز نہیں کیا گیا کہ معاشرے کے متعلقہ شعبوں کے ذریعے لوگوں کو تعلیم دی جاسکے یا جیسے اخبار اور ٹیلیویژن۔
دراصل اس کا سیاق وسباق کچھ یوں ہے کہ معزز سپریم کورٹ نے 2018 میں بیرسٹر ظفر اللہ خان وغیرہ بنام وفاق پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ نے قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس زمن پر روز دیا تھا کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح پانی کو بچایا جاسکتا ہے مگر 6 برس بیت جانے کے بعد اس پر کسی قسم کا عمل نہیں ہوسکا جس پر جناب جسٹس سہیل ناصر صاحب نے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کو پامال کیا گیا اور کسی قسم کی عملداری نہیں لائی گئی۔
یہ بات ہمارے نظام عدل اور نظام حکومت دونوں پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر ہم کس رمز کے مارے بے بس ہیں، کبھی تو یوں لگتا ہے کہ بددعائے ہوئے ہیں۔۔۔۔
پیمرا آرڈیننس 2002 کی دفعہ 20 ای میں یہ بات واضع کر دی گئی ہے کہ مفاد عامہ سے متعلق کوئی پروگرام وفاق حکومت چوبیس گھنٹے میں سے دس فیصد چلوا سکتی ہے، مگر یہ ممکن اس صورت ہوگا جب ٹی وی چینل کے لائسنس کی شرائط و ضوابط میں اس کا ذکر ہوگا، ایک فائدہ مند بات یہ ہے کہ تقریبا تمام چینلوں کی نشریات کے لیے، حاصل کیے گئے لائسنسوں میں اس شک کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مفاد عامہ کی خاطر مہم چلانے کے لیے وفاقی حکومت پیمرا کو ہدایات دے سکتی ہے۔
نیز یہ کہ اس امر کی ضرورت ہے کہ ہر ضلع کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ایجوکیشن کو یہ ہدایات دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ضلعے کے سکولوں میں طلباء میں آگاہی حفظ آب پیدا کریں، جس سے یقینا بہتری پیدا ہونے کی امید لگائی جاسکتی ہے، اسی طرح کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی یہ کام کیا جاسکتا ہے، اخبار اور مختلف جریدوں کی مدد سے بھی بہتری پیدا کی جاسکتی ہے۔
اگر بروقت ہم ماحولیاتی تبدیلی کو سمجھنے اور بہتر کرنے میں نہ جت گئے تو یقینا ہمارا بڑھایا ورنہ ہماری اگلی نسل ہمیں ضرور کوسیں گے کہ ہم کون سی دنیا ان کے سپرد کئے جارہے ہیں جس میں خلائی مشینیں تو آب و تاب سے جگمگا رہی ہیں مگر حالت 1857 کی جنگ آزادی کے بعد کسی گھوٹ کی ماند ہے، جس میں پانی دستیاب نہیں۔۔۔اب اس بات کو مذاق میں ہرگز نہیں لیا جاسکتا کیونکہ دنیا (جیسے میں نے اوپر جنوبی افریقہ کا ذکر کیا) اس سے دوچار ہے۔۔۔۔بلکہ ہمارے اپنے ملک میں کئی علاقے ایسے اب بھی موجود ہیں جہاں پینے کا پانی میسر نہیں۔
ہمیں ڈرنا ہے اس وقت سے جب پانی سونے کے ماشوں کے دام ملنے لگے!!!
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔