موجودہ رفتار سے پاکستان کو زچگی کے دوران خواتین کی اموات روکنے میں مزید 122 سال لگیں گے۔ اگرچہ دنیا نے گزشتہ تیس سالوں کے دوران جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کے حوالے سے بڑی پیش رفت کی ہے، لیکن دنیا میں اب بھی لاکھوں خواتین ان حقوق سے محروم ہیں۔
بدھ کے روز اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایف پی اے نے ’’دُنیا کی آبادی کی صورت حال 2024‘‘ پر سالانہ رپورٹ کا اجراء کیا ہے۔جس کا موضوع، ’’اُمید کے دھاگوں سے باہم بندھی زندگیاں و جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق میں عدم مساوات کا خاتمہ‘‘ ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ معاشرے کی ترقی کا رستہ صرف ایک ایسے مستقبل کے حصول سے ممکن ہے، جہاں تمام طبقوں کو یکساں حقوق اور مواقع حاصل ہوں۔ اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوئی ہے کہ امتیازی سلوک دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین اور لڑکیوں کی جنسی اور تولیدی صحت کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
رپورٹ میں اس بات کو سمجھنے پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ساختی عدم مساوات کی وجہ سے بہت سے افراد خطرات سے دوچار ہیں اور ان میں سے نصف سے زیادہ، یعنی روزانہ تقریباً 500 اموات بحرانوں اور تنازعات کے شکار ممالک میں ہوتی ہیں ۔
لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ان حقوق سے محروم ہیں، اور اہم اقدامات پر پیش رفت سست روی کا شکار ہے یا بالکل رُکی ہوئی ہے۔ ہر روز 800 خواتین بچوں کی پیدائش کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، 2016 کے بعد سے اس صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور تقریبا 10 میں سے ایک عورت مانع حمل طریقوں کے استعمال کے حوالے سے اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک سے بھی کم خاتون جنسی اور تولیدی صحت کے حوالے سے اپنے فیصلے خود کر سکتی ہیں، جبکہ خواتین باہم معذوری کا دیگر خواتین کے مقابلے میں صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرنے کا امکان 10 گنا زیادہ ہے۔
پاکستان میں یو این ایف پی اے کے سربراہ، ڈاکٹر لوے شبانے نے رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
کہ ’’پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہر نوجوان کو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی 50 فیصد سے زائد آبادی 19 سال سے کم عمر ہے اور اگر نوجوانوں کو اچھی صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود کے حقوق نہ دئیے گئے، تو ملک ترقی اور کامیابی کا ایک بہت بڑا موقع گنوا دے گا ۔
خواتین اور لڑکیاں پاکستان کے سماجی اور معاشی نظام میں ایک کھوئے ہوئے موقع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ حقیقت رپورٹ کے نتائج کے عین مطابق ہے، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ساختی عدم مساوات کی وجہ سے زیادہ تر خواتین کو اب بھی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ‘‘
بعض جگہوں پر عدم مساوات کے رجحانات بدستور مستحکم ہیں.
رپورٹ میں درج شواہد سے ایک پریشان کن حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ مانع حمل ادویات، محفوظ زچگی کی خدمات، زچگی کے دوران باعزت دیکھ بھال، اور دیگر ضروری جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات اب بھی بہت ساری خواتین اور لڑکیوں کی رسائی سے دور ہیں۔
یونیورسل ہیلتھ کوریج (یو ایچ سی) سروس کوریج انڈیکس پاکستان میں صرف 21 فیصد، یعنی مایوس کن حد تک کم ہے۔ پاکستان میں ہر 50 منٹ میں ایک خاتون حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر جاتی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کو بروقت صحت کی سہولیات ملنے کے امکانات کم ہیں، اس کے باوجود افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس ضمن میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ اگر ترقی کی یہی رفتار جاری رہی تو پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح صفر ہونے میں 122 سال اور خاندانی منصوبہ بندی کی ضروریات کو پورا ہونے میں مزید 93 سال لگنے کا امکان ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری، باہمی تعاون اور مناسب حل کی ضرورت ہے پورٹ میں پوری آبادی کے لئے بڑے پیمانے کے پروگرام متعارف کرانے کی بجائے، چھوٹی کمیونیٹیز کی ضروریات کے مطابق مناسب پروگرام ترتیب دینے، اور خواتین اور لڑکیوں کو جدید حل تیار کرنے اور نافذ کرنے کے لئے بااختیار بنانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر دنیا سال 2030 تک کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اضافی 79 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے، تو اس سے 40 کروڑ عیزاداری حمل روکے جا سکیں گے، 10 لاکھ زندگیاں بچائی جا سکیں گی اور 660 ارب ڈالر کے معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔