جڑانوالہ ٹی ایچ کیو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر(ب فارم) لانے کی پالیسی نے بچوں پر علاج معالجہ کے دروازے بند کر دئیے گئے،بے بس دکھیاری ماں معصوم بچے کا علاج کروائے بغیر ہی مایوس ہو کر گھر واپس لوٹ گی،عوام منہگے داموں پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجہ کروانے پر مجبور،عوامی سماجی حلقوں کا حکام بالا سے نوٹس لینے کا مطالبہ،تفصیلات کے مطابق جڑانوالہ کے واحد ٹی ایچ کیو ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر بچوں کے علاج کیلئے(ب فارم) ساتھ لیکر آنے کی انوکھی منتظق نے غریب و مستحق مریضوں پر علاج معالجہ کے دروازے بند کر دئیے گئے ہیں ذرائع کے مطابق 2 روز قبل ڈیوٹی ڈاکٹر نے ماں کے ساتھ آئے بچے کو جسمانی کمروزی کے باعث لیبارٹری سے ٹیسٹ رپورٹ کروانے کی تجویز دی جس پر بچے کی والدہ نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے گئے اور رپورٹ آنے پر ڈیوٹی ڈاکٹر نے بچے کو خون لگوانے کیلئے وارڈز میں منتقل کیا جہاں پر موجود سٹاف نے بچے کے علاج کیلئے والدہ کو(ب فارم) لانے کا کہا تو مجبور ماں حیرانگی میں مبتلا ہو گی ذرائع کے مطابق بچے کی والدہ کے اصرار اور منت سماجت کے باوجود ڈیوٹی سٹاف نے علاج معالجہ سے صاف انکار کر دیا جس پر بچے کی مجبور و بے بس والدہ مایوسی کی تصویر بنے علاج کروائے بغیر ہی واپس لوٹ گی جڑانوالہ کے واحد ٹی ایچ کیو ہسپتال میں علاج معالجہ کی غرض سے آنیوالے بچوں کیلئے ب فارم لانے کی انوکھی منطق نے عوامی سماجی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے عوامی سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتال میں ب فارم کی شرط ابادی کے 80 فیصد بچوں کو حکومت کی جانب مفت علاج معالجہ کی سہولت سے محروم رکھنے کے مترادف ہے ایمرجنسی کی صورت میں آنیوالے بچوں کے علاج معالجہ کیلئے ب فارم کی شرط کو مکمل طور پر ختم کیا جائے بصورت دیگر بر وقت علاج نہ ہونے پر انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گا عوامی سماجی حلقوں نے ب فارم نہ ہونے پر سرکاری ہسپتال کے سٹاف کی جانب سے بچے کا علاج معالجہ نہ کرنے کے معاملہ کی اعلی سطحی انکوائری کی جائے اور ذمہ داران کیخلاف سخت محکمانہ کارروائی عمل میں لا کر معطل کیا جائے جبکہ عوامی سماجی حلقوں نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف، سیکرٹری ہتیلھ پنجاب و دیگر حکام بالا سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹی ایچ کیو ہسپتال میں ب فارم نہ لانے پر بچوں کا علاج نہ کرنے کی پالیسی کا فی الفور نوٹس لیا جائے اور ب فارم کی شرط کو فی الفور ختم کیا جائے تا کہ عوام سرکاری ہسپتال میں مفت علاج معالجہ کی سہولت سے حقیقی معنوں میں مستفید ہو سکے