زندگی بہتی ندی کے پانی کی ماند ہے بس چلتی چلی جاتی ہے اور نہ جانے آدمی کتنا آگے نکل جاتا ہے، اس زندگی میں انسان کو کئی مثالی شخصیات کی موجودگی درکار رہتی ہے کہ جن کے زینوں کی نشانیوں کو انسان دیکھ کر رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح تجربات بآسانی انسان کی خدمت میں پیش ہوجایا کرتے ہیں اور آپ ان کے تجربے کی بنیاد پر اپنا رخت سفر ان کی چھوڑی ہوئی میراث سے باندھتے ہیں اور ابتداء کی تھکان سے آپ مبرا ہو جاتے ہیں جو آپ کے سفر ناتمام کو کچھ آسان بنا دیتا ہے اور زیست بے مہاراں کسی خاص راہ پر آجاتی ہے جس پر چلنا آسان ہوجاتا ہے ویسے بھی کسی راستے پر یا کسی کے قدموں کی چھاپ پر اپنے قدم رکھنا یقینا نیا راستہ بنانے سے بہتر اور بے حد سہل ہے۔ مگر کسی کی زندگی کے نقش و پا کو اپنا لینے کے لیے اس شخصیت کے بارے میں مکمل علم حاصل کرنا بے حد ضروری ہے مگر یہ عمل ایک ان تھک ریاضت کا طلبگار رہتا ہے، ایسا نہیں کہ آپ خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہیں اور آرزو قلب یہ ہو کہ ہمیں راستوں کی تکمیل خوابوں کے ذریعے سدھا دی جائے، جو حقیقتا ممکن نہیں ہے۔
اب ہماری زندگیوں میں بھی بے شمار ایسے ایام آتے ہیں کہ جو ہم خاص شخصیات کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں اور چھٹی کے مزے لوٹتے ہوئے سارا دن استراحت فرما کر من حیث القوم اس عظیم الشان شخصیت کے ورثاء کے طور پر اس کے علم اور تعلیم کے صدقے اپنی بہتری چاہتے ہیں جو بالکل اس طور تو ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے مکمل ریاضت کی ضرورت درکار رہتی ہے۔ اور پھر جب ہم ناکام رہتے ہیں تو ہمارے منفی لوگ انہیں شخصیات میں بے تحاشا نقائص نکالنا شروع کر دیتے ہیں، اپنی تمام نالائقیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ ہم نے اپنے بڑوں کی راہ کو سمجھنے کی کوشش بھی کی ہے یا نہیں!
اب یہ لے لیجئے کہ 9 نومبر اقبال ڈے کو ہم عام تعطیل کا اعلان کر کے پوری قوم کو یوم نیند میں مبتلا کر کے اقبالیات سے آشنا کرنا چاہتے ہیں، اور چند بڑی عمارتوں میں رسمی سی معمول کے ترانوں سے ساتھ اور مصنوعی تقاریر اور اشعار سے لیس تقاریر کروا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اقبال کی شخصیت سے آگاہی حاصل کر لی ہے۔
اب حقیقت یہ ہے کہ ہم اس بات سے زیادہ آگے بڑھ ہی نہیں سکے کہ اقبال جرمنی گئے، ٹھنڈے پانی سے وضو کیا اور جرمن لیڈی اور علی بخش کی چند دیو مالائی کہاوتوں سے ہم شاید نکلے ہی نہیں، کہ ہم اقبال کی فکر سے نوجوانوں کو روشناس کروائیں مگر ہم عقیدت کے اظہار کی خاطر ایک نادر موقع چھٹی کا اعلان کر کے گوا دیتے ہیں۔
اب کیا ہی اچھا ہو کہ سکولوں،کالجوں،دفاتر اور دیگر مقامات پر سنجیدہ مشقیں کی جائیں جو مصنوعی تقاریر اور ڈھونگ بازی سے پاک ترانوں اور بے ربت اشعار سے عاری ہوں، تاکہ بات سمجھی بھی جاسکے اور سمجھائی بھی جاسکے۔
اس خاص دن کے لیے، سارے دن کے عمومی کام میں اگر یہ مشقیں ڈال دی جائیں تو اس سے کچھ سیکھا بھی جاسکتا ہے،صرف جھنڈوں ترانوں سے نہ تو کسی کے راستے پر چلا جاسکتا ہے نہ ہی کسی کی شخصیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اس امید کے ساتھ کہ خدا ہمیں اور ہمارے ارباب وبست و کشاد کو یہ چھٹی کا اعلان کر دینی کی عادت فاسدہ سے بچائے اور اس قوم کو بھی چھٹی کی پلاننگ کے سوا کچھ اور کرنے کا سلیقہ دے، ہم وہ عجیب قوم ہیں جو سال شروع ہوتے ہی نئے سال کی آنے والی چھٹیاں گنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کتنی چھٹیوں کے ساتھ ویکنڈ آرہا ہے، اب یہ آرزو کرنا سرشت انسانی کے خلاف تو نہیں ہے مگر اکثریت سونے کی مشق کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی، جو یقینا قابل اعتراض عمل ہے۔
اگر اس قوم نے اپنے بزرگوں کو دیکھ کر ترقی کی راہوں کو پانا ہے تو بڑوں کی یاد، عمل کرتے ہوئے منانی چاہئے تاکہ ان کے بارے میں کچھ پڑھا لکھا،سنا سنایا جاسکے نہ کہ سد بدھ ہو کر بس ایام کے ظلم کو آتے جاتے اور ضائع ہوتے دیکھا جاسکے۔
جیسے منیر نیازی مرحوم کیا خوب کہتے ہیں،
”
سورج چڑھیا پچھم تُوں
تے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگیا،
کوئی وی کم نہ ہویا
ناں ملیاں میں خلقت نوں،
ناں یاد خدا نوں کیتا
ناں میں پڑھی نماز تے
ناں میں جام شراب دا پیتا
خوشی ناں غم کوئی کول ناں آیا
ناں ہسیاں، ناں رویا
اج دا دن وی ایویں لنگیا،
کوئی وی کم نہ ہویا
منیر نیازی کہتے ہیں اس لیے لکھا ہے کیونکہ شاعر ہمیشہ اپنے کلام سے ہم میں موجود رہتا ہے۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے اہمیت کے حامل دنوں کا کیا انجام کرنا چاہتے ہیں؟ فیصلہ شاید ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے نہ کسی اغیار کے ہاتھ ہے،نہ کسی ملحد کے ہاتھ ہے اور نہ یہودی کے ہاتھ ہے اور نہ ہی مولوی کا فتویٰ رخنہ صنم نہیں ہے۔۔۔باقی ہم عظیم قوم تو ہیں ہی۔
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔