اسلام آباد: نگران وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی) بند نہیں کر رہے ہیں تاہم وہ تمام ادارے جن کی نجکاری کا عمل پہلے ہی شروع ہوچکا ہے وہ مکمل ہوگا۔نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے نگران وزیراطلاعات و نشریات کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ غیرضروری پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ نگران حکومت نجکاری کا کوئی ایجنڈا لا رہی ہے جو آئین اور قانون ہمیں نہیں دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میری وزارت نجکاری ہے اور یہ اختیار ہم نے اپنے لیے فرض نہیں کیا بلکہ ترمیم میں ایک شق شامل کی ہے کہ نگران حکومت کا اختیار بڑھا دیا گیا ہے اور اس پر تفصیل سے بات کی جاچکی تھی اور بتایا گیا تھا کہ نگران حکومت عمل کے تسلسل کے لیے جاری رکھے گی۔انہوں نے کہ ایک بات سب کے ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ نجکاری کے ہر عمل میں وقت مقرر ہے اور اس کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا ہے، یہاں تک سنا کہ فواد حسن فواد کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ تین مہینوں میں پی آئی اے بند کردیا جائے۔فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ وزارت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد پہلے دن آیا تو پتا چلا کہ پی آئی اے اپنی پروازیں برقرار رکھنے کے لیے جون سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ہم نے وزیرخزانہ کی مدد سے وہ کام 48 گھنٹوں میں پورا کیا اور آج پی آئی اے کی پروازیں جاری ہیں اور اس کے لیے منصوبہ بندی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ لسٹڈ کمپنیاں اور اس کی ایک قدر ہے لیکن اس طرح کی افواہوں سے وہ قدر متاثر ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم آج جو کام کر رہے ہیں، اس کا اختیار منتخب حکومت ہمیں دے کر گئی ہے اور ہم نے اپنے لیے کوئی اختیار کا نہیں سوچا لہذا یہ کہنا کہ اس حکومت کا نجکاری کا کوئی ایسا ایجنڈا ہے تو یاد رہے کہ ان کمپنیوں کی نجکاری کا عمل مختلف مراحل میں ہے اور یہ سلسلہ 2001 سے شروع ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت نے کسی کمپنی یا ادارے کا اضافہ نہیں کیا کیونکہ یہ ہمارے مینڈیٹ میں نہیں ہے، اگر ایسا کام کریں گے تو غلط ہوگا لیکن جو ادارے اور کمپنیاں منتخب حکومتیں نجکاری کی فہرست میں ڈال چکی ہیں، اس عمل کو آگے بڑھانا ہمارے پاس جب تک مینڈیٹ ہے وہ ہمارا اختیار ہے اور ہمارا کام اس دوران اس عمل کو چلتے رکھنا ہے۔نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ پچھلے دو سال میں بھی نجکاری کے جو کام کیے جاچکے ہیں اس کی ٹرانزیکشنز بھی اب تک نہیں ہوسکی ہیں کیونکہ کہیں پر مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان جھگڑا ہے، کہیں حصص کنندگان کا جھگڑا ہے، یہاں تک جو نجکاری پچھلی حکومتیں کر کے گئی ہیں اس کو ہم پورا کر رہے ہیں، فہرست میں موجود اداروں کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جو ادارے نجکاری کے عمل سے گزر چکے ہیں لیکن کسی قانونی پیچیدگی یا عمل کی غلطی کی وجہ سے اب تک مکمل نہیں ہوئے ہیں اس عمل اور قانونی خامیوں کو دور کر کے اس مل کو مکمل کر رہے ہیں۔نجکاری کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان نقصانات کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو اس وقت حکومت اور وزارت خزانہ پر ہر طرف سے منہ کھولے ہوئے ہیں، جو حکومت اور عام آدمی پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے خسارے میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کا بوجھ سب سے زیادہ عام آدمی برداشت کرتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی ہوتی ہے اور قوت خرید کم ہوجاتی ہے اور خسارا جتنا بڑھتا جاتا ہے کہ اس سے حکومت کی سبسڈی دینے کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔فواد حسن فواد نے سینیٹر رضا ربانی کے بیان سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ میں ان کا احترام کرتا ہوں اور آئین میں نگران حکومت کا ذکر ہے اور اس کے بعد تمام شقیں الیکشن ایکٹ میں ہیں لیکن اب نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، جس میں نجکاری سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے پر توجہ میرے خیال میں اس لیے زیادہ ہے کیونکہ پی آئی اے پر دلچسپی زیادہ ہے ورنہ ہماری توجہ دیگر تمام اداروں پر ہے لیکن ہم اس میں اولین ترجیح کسی ادارے پر اس لیے دے رہے کہ جو زیادہ نقصان کا باعث بن رہا ہے اور اس کو جلد سے جلد کم کیا جائے۔پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں عمل شروع ہوا اس کے نتیجے میں چین کی 4 پارٹیاں سامنے آئیں اور اس دوران کورونا کی وجہ سے معیشت خراب ہوئی اور وہ کمپنیاں اب دلچسپی نہیں رکھتیں کیونکہ عالمی اور مقامی سطح پر اسٹیل کی طلب میں خاصی کمی آئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک کمپنی اب بھی موجود ہے اور ہم صرف ایک کمپنی سے معاملات کر رہے ہیں اور دوبارہ بات کریں گے لیکن میرا ذاتی مقف رہا ہے کہ کبھی بھی سنگل پارٹی بولی نہیں ہونی چاہیے، اس لیے یہ فیصلہ کابینہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیل مل کی جو نجکاری کر رہے ہیں اس میں صرف ان آپریٹیو اثاثوں کی ہے جو اسٹیل ملز کا حصہ ہیں، بلڈنگ، اسٹرکچر، مشین اور وہ زمین جس پر یہ چیزیں واقع ہیں اور دیگر زمین اس نجکاری کا حصہ نہیں ہے۔نگران وزیر نجکاری نے پی آئی اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کا حق ہے انہیں ایسی ایئرلائن میسر ہوں جو پاکستان سے مطلوبہ منزل تک کم وقت میں لے جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر 96 سب سے زیادہ فائدہ مند روٹس ہونے کے باوجود ایک ایئرلائن اربوں روپے کا سالانہ خسارہ کر رہی ہے تو بیرون ملک پاکستانی 8 گھنٹوں کے بجائے تقریبا 20گھنٹوں میں منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اور بیرونی ایئرلائنز کا ٹکٹ خریدتے ہیں تو پیسے وہاں چلے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقین دلاتا ہوں کہ پی آئی اے بند نہیں ہوگی، جس دن میں آیا تھا اس دن پی آئی اے بند ہونے والی تھی جبکہ نگران وزیراعظم نے بھی ہدایت کی تھی کسی صورت پی آئی اے بند نہیں کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ادارہ بند ہوجاتا ہے مثلا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ پی آئی اے بند ہوجائے اور اس کے باوجود ملازمین کو ایک جہاز دیا جائے تو ان کے پاس پرواز نہیں ہوگی لیکن پی آئی اے ضرور ہوگی، کسی ملازم کو نہیں نکالا جارہا ہے بلکہ ان کو ردوبدل کیا جا رہا ہے اور ان کے لیے رضاکارانہ مواقع تیار کیے جائیں گے اور ان پر دبا نہیں ڈالا جائے گا۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے ہر فیصلے کا جواب دہ ہوں اور احتساب کے لیے تیار ہوں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جس کا بوجھ اٹھانے کے لیے دوسرا کوئی تیار نہیں ہوتا، اگر پاکستان نے ان خسارہ دینے والے اداروں سے جان نہیں چھوڑی تو ہم شاید موجودہ حالات سے زیادہ خراب حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔فواد حسن فواد سے سوال کیا گیا کہ آپ کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے جوڑا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ اپنے سرکاری نوکری میں 35 سال کام کیا اور تقریبا 11 سال بلوچستان میں کام کیا تو میرا تعلق نواب ذوالفقار مگسی سے بھی جوڑنا چاہیے، سردار اختر مینگل سے بھی جوڑنا چاہیے، نواب اکبر بگٹی، تاج حیدر جمالی سے بھی جوڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی یا چند لوگوں کی مرضی پر ہے میرا تعلق کسی سے بھی جوڑے لیکن تاریخ دیکھ لیں تو جب اپریل 2022 میں حکومت بنی تھی تو میں نے اس حکومت میں شمولیت نہیں کی تھی، اگر میں مسلم لیگ کا حصہ ہوتا تو کیوں اس حکومت میں شامل نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے ساتھ سول سرونٹ کام کرتے ہیں وہ فیصلہ وہ خود نہیں کرتے بلکہ عوام فیصلہ کرتے ہیں کہ کون حکومت کرے گا اور سول سرونٹ پر لازم ہے کہ وہ ان کے احکامات پر عمل کریں۔فواد حسن فواد نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ یہ ذمہ داری لیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں یہ دورانیہ مختصر ہے کیونکہ نجکاری کا عمل طویل ہے اور کابینہ سے منظوری لینے کے بعد عمل مکمل کرنا پڑتا ہے۔نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان خوش آئند ہے، افواہیں پھیلانے والوں کے لیے آج مایوسی کا دن ہے، ہمیں خوشی ہے کہ ملک میں آئین کے تحت انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت اس ملک کو اس کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن 30 نومبر تک تمام کام مکمل کرلے گا اور الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے 54 دن دیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات ہوں گے، جو ایک بڑی خبر ہے، ہمیں خوشی ہے کہ ملک میں آئین کے تحت انتخابات ہوں گے، انتخابات کے انعقاد سے ملک میں معاشی ترقی و سیاسی استحکام میں اضافہ ہوگا۔جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت بدحالی کا شکار ہے اور اس کی تنظیم نو کی سخت ضرورت ہے۔ ملک کو مالیاتی استحکام کی طرف لوٹنے اور نجی سرمایہ کاروں کو واپس لانے کی ضرورت ہے۔ یہ طویل مدتی اہداف صرف ایک ایسے پالیسی فریم ورک کے ذریعے ہی پورے کیے جا سکتے ہیں جو کسی ایک فرد یا سیاسی جماعت کی مدت سے زیادہ ہو۔ کئی سالوں سے، ماہرین نے توانائی اور بجلی کے شعبے میں اصلاحات، ٹیکس اصلاحات، اور مالیاتی اور مالیاتی پالیسی کے انتظام میں بہتری پر زور دیا ہے۔اگرچہ ماہرین اقتصادیات کا نقطہ نظر بعض اوقات سیاست دانوں سے مختلف ہوتا ہے، لیکن کوئی بھی معاشی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی اگر اس پر عمل درآمد کرنا سیاسی طور پر مشکل ہو۔ لیکن پاکستان میں، سیاست دان اور دیگر رہنما سیاسی مشکلات یا عوامی ردعمل کا حوالہ دے کر ناگزیر اقتصادی فیصلوں کو ہمیشہ کے لیے ملتوی کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کا ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب، جو کہ 10.3 فیصد کے قریب ہے، اسے 15 فیصد تک بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ 1990 کی دہائی میں واپس جانے والے سرکاری ملکیتی اداروںکی حکومت پر بوجھ کم کرنے کے لیے وقتا فوقتا مطالبات کیے جاتے رہے ہیں، لیکن یہ عمل مناسب طریقے سے آگے بڑھا اور شروع ہو گیا۔ یہ کاروبار نجی شعبے میں زیادہ موثر طریقے سے چلائے جاسکتے ہیں اور غیر ملکی خریدار ان میں سے بہت سی چیزیں بخوشی حاصل کریں گے، جس سے بہت زیادہ ضروری زرمبادلہ حاصل ہوگا۔کچھ سرکاری ملکیتی ادارے سالوں سے خسارے میں ہیں اور مستقبل بعید میں بھی ریاستی انتظام کے تحت نتیجہ خیز بننے کا امکان نہیں ہے۔ دوسروں کو صرف بند کرنے اور ان کے اثاثوں کو چھین کر دوسرے، زیادہ پیداواری، استعمال میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک نے کامیابی سے نجکاری کا انتظام کیا ہے۔ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام یا پیچھے کیوں رہے؟زیادہ تر ممالک میں ایندھن کی قیمتیں مارکیٹ سے چلتی ہیں اور پاکستان کو بھی اس سے مستثنی نہیں ہونا چاہیے۔ جب ایندھن کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، صارفین کو زیادہ قیمتیں ادا کرنی چاہئیں، بالکل اسی طرح جب قیمتیں گرتی ہیں تو انہیں کم لاگت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ موجودہ طرز عمل یہ ہے کہ حکومت توانائی کی قیمتیں طے کرتی ہے۔ جب عالمی تیل اور گیس کی قیمتیں گرتی ہیں تو یہ سرچارجز کے ذریعے اپنے دائمی محصولات کے خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان قیمتوں میں اضافے پر صارفین کو سبسڈی دیتا ہے۔حکومتی رہنماں کا خیال ہے کہ تیل، گیس اور بجلی کی کم قیمتیں انہیں مقبول بناتی ہیں، جبکہ زیادہ بلوں کے نتیجے میں عوامی احتجاج ہوتا ہے۔ لیکن قیمتوں کو مصنوعی طور پر کم رکھنے میں سبسڈی شامل ہے، جو معیشت کو چلانے میں مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔ یہ سب کے لیے بہتر ہو سکتا ہے اگر حکومت اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کر لے، فی الحال صارفین پر بوجھ ڈالنے والے سرچارجز کو ختم کر دے، اور ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کو مارکیٹ کے ذریعے طے کرنے کی اجازت دے دے۔پاکستان بھی زیادہ رقم چھاپ کر اپنے بجٹ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا، جو ہمیشہ مہنگائی کا باعث بنتا ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبوں کو ایسے طریقہ کار پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جو مالیاتی ذمہ داری کے وعدوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ قومی مالیاتی صورتحال کو اس سے کہیں زیادہ پیشین گوئی کرنے کی ضرورت ہے جتنا کہ اکثر ہوتا رہا ہے۔برآمدات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ 1960 کی نصابی کتاب آپ کو بتائے گی کہ پاکستان کپاس کی مصنوعات، چاول، چمڑے کے سامان، آلات جراحی اور کھیلوں کے آلات کا برآمد کنندہ ہے۔ دریں اثنا، ہمارا پڑوسی ہندوستان، جس کا پچاس سال پہلے اسی طرح کا ایکسپورٹ پروفائل تھا، اب ریفائنڈ پیٹرولیم، پالش شدہ ہیرے، پیک شدہ ادویات، کمپیوٹر سافٹ ویئر اور زیورات بھی برآمد کرتا ہے۔ واضح طور پر، پاکستان کی کاروباری برادری نے برآمد کرنے کے لیے نئی مصنوعات تلاش کرنا اپنے مفاد میں نہیں پایا۔ صرف معاشی ترغیبات، نصیحتیں اور وعظ نہیں، اس کو بدل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بنگلہ دیش کی طرح ویلیو ایڈڈ گارمنٹس میں جانے کی ترغیب دی جانی چاہیے۔ایڈم سمتھ، جسے معاشیات کا باپ سمجھا جاتا ہے، نے معاشیات کے تین بنیادی قوانین کی نشاندہی کی۔ یہ ہیں: خود غرضی کا قانون، مقابلہ کا قانون، اور طلب و رسد کا قانون۔ ان کی بنیاد پر، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سرمایہ کاری اور کاروباری فیصلے سرمایہ کاروں کے ذاتی مفاد کی بنیاد پر کیے جائیں گے، منصفانہ مسابقت معیشت کو مزید موثر بنائے گی، اور اشیا اور خدمات کی قیمتوں کا تعین طلب اور رسد کی بنیاد پر کیا جائے گا۔حکومت کا کردار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کاروباری مالکان کو لیکچر دے کہ سرمایہ کاری کرنا یا ٹیکس ادا کرنا ان کا حب الوطنی کا فرض ہے۔ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں سرمایہ کاروں اور کاروباری مالکان کے مفادات کو پاکستان میں سرمایہ کاری اور ٹیکس ادا کرنے سے بہترین طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ اسی طرح، حد سے زیادہ ریگولیشن کے بغیر مسابقت کو قابل بنانا اور مارکیٹ میکانزم کو غیر منصفانہ ہیرا پھیری کے بغیر کام کرنے کی اجازت دینا معیشت کے بہتر کام کو یقینی بنائے گا۔فی الحال وہ طاقتیں انتظامی اقدامات پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جیسے اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈان (جس کے نتیجے میں محصولات میں نقصان ہوتا ہے)، ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی (جو مصنوعی طور پر سپلائی کو محدود کرتی ہے اور قیمتوں کو بڑھاتی ہے)، اور بدعنوانی (جو سرمایہ کاری کو کم کرتی ہے، حدود معاشی نمو، اور مسابقت کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات کی تشکیل پر بھی نقصان دہ اثر ڈالتی ہے)۔ یہ اقدامات اپنی افادیت کے بغیر نہیں ہیں، لیکن ان کی حدود کو یاد رکھنا ضروری ہے۔اکتوبر 1958 میں پاکستان کا پہلا مارشل لا لگانے کے فورا بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی ملک کو بدعنوان عناصر سے پاک کرنے کے لیے ایسے ہی اقدامات کا آغاز کیا۔ دس سال بعد، اپنی سوانح عمری ‘فرینڈز ناٹ ماسٹرز’ میں، اس نے بتایا کہ کریک ڈان نے معیشت کو کیوں تبدیل نہیں کیا۔ فیلڈ مارشل کے مشاہدات (Friends Not Masters کے صفحہ 78 پر) آج کے ماحول میں بھی یاد رکھنے کے لیے مفید ہوں گے۔ایوب خان کے مطابق، “جو بات فوجی افسران کو سمجھ نہیں آئی وہ یہ تھی کہ سول ایکشن قانون کی حدود سے مشروط ہے اور اسے عوامی رائے کے دھارے اور کراس کرنٹ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ میں انہیں دو فوری اقدامات کے نتائج بتاں گا جو ہم نے انقلاب کے پہلے دنوں میں کیے تھے۔ ہم نے مارشل لا کے دو ضابطے بنائے: ایک نے اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کو جرم قرار دیا اور دوسرے نے بلیک مارکیٹنگ کو سخت سزا کا نشانہ بنایا۔ان اقدامات کا نتیجہ، انہوں نے جاری رکھا، “کیا مٹھائیاں 150 روپے فی سیر [1.25 کلو کے برابر] میں فروخت ہونے لگیں اور کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کو مکمل طور پر روکا گیا۔ لیکن ایک پندرہ دن کے اندر تمام اسٹاک ختم ہو گئے اور کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بھی ابتدائی طور پر زبردست جوش و خروش پایا گیا، اور ہر ایک نے کراکری، کٹلری اور گھڑیاں انتہائی مناسب قیمتوں پر خریدنا شروع کر دیں۔ لیکن ایک بار اسٹاک فروخت ہونے کے بعد ان کو تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ تاجر کو دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی کوئی ترغیب نہیں تھی۔