جمعہ کے روز ن لیگی راہنما عطا تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس بندیال نے مدر ان لا کو بچانے کے لیے لا قربان کر دیا۔اس ملک میں انصاف قانون اور آئین کا اخلاقی تقاضا ہے کہ جج کے کسی قریبی عزیز یا دوست کا کیس سننے سے گریز کرتے ہیں۔انہوں نے کہا آج سپریم کورٹ نے 5 رکنی پینچ کا مختصر فیصلہ سنایا ہے۔
اس کیس کی بنیاد چیف جسٹس کی اپنی ہی ساس کی آڈیو ہے۔ آڈیو میں جسٹس منیب کا بھی ذکر شامل ہے۔اور یہ دونوں جج اس کیس پر بنائے گئے بینچ میں شامل تھے۔حکومت کی طرف سے ان آڈیوزکی تحقیق کے لیے کمیشن قائم کیا گیا تھا۔چیف جسٹس بندیال نے اپنی ساس کا کیس اپنے پاس لگایا اور اس کی تحقیقات کو رکوا دیاجو کہ غیر اخلاقی ہے۔
عطا تارڑ نے کہا پہلے سے عیاں تھا کہ بندیال اس کیس کا 16 ستمبر سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔جس جج کی ساس ہے اور آڈیو میں جس جج کا ذکر شامل ہے وہ انصاف کیسے کریں گے۔اس آڈیو کی تحقیقق کیسے ممکن بنائی جائے گی۔ساس کے کیس
کے دوران الیکشن کے شیڈول اور قانونی معاملات پر گفتگو کی گئی۔جبکہ جسٹس بندیال نے اس وقت کی حکومت کی طرف سے چیف جسٹس کی ساس کی ویڈیو کی تحقیق پر کمیشن بنانا بھی بد نیتی قرار دیا۔تحقیقاتی کمیشن پر سٹے آرڈر دینے والے داماد نے وزرا پر توہین عدالت کا الزام لگا دیا۔
ن لیگی راہنما نے کہا مگر چیف جسٹس کے اپنے ساتھی ججز نے ان پر خدشات کا اظہار کیا۔ساتھی ججز نے تحریری فیصلوں میں جسٹس بندیال کی عدالت کو امپیریل کورٹ کہا۔آپ کے ساتھی ججز جانتے تھے مظاہر علی کرپشن میں ملوث ہیں۔آپ فل کورٹ اجلاس طلب نہ کر سکے۔انہوں نے کہا جب قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کے سینیرترین تین ججوں کو بینچ تشکیل کرنے کا اختیار دیا گیا۔تو جسٹس بندیال نے قانون کو معرض وجود میں آنے سے قبل ہی کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس بندیال اپنی ساس کی سیاسی سرگرمیوں کو کیسے خفیہ رکھ سکتے ہیں۔
آپ نے الیکش شیڈیول اور عدالتی توہین کے پیچھے چھپ کر اپنی ساس کو این آر او دے دیا۔اپنی ساس کو بچانے کے لیے NRO,s کی ماں وجود میں لے آئے۔ آپ ایک اچھے داماد میں۔لا کو قربان کر کے مدر ان لا کو بچا لیا۔اس کیس میں جج، ملزم، مدعی اور وکیل سب کرادر جسٹس بندیال کے ہی تھے۔جسٹس بندیال چاہتے تو عزت کے ساتھ رخصت ہو سکتے تھے مگر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔