لاہور.شکیل احمد
سینٹر برائے ایرو اسپیس و سیکیورٹی اسٹڈیز (کیس)، لاہور کی جانب سے “ایرو اسپیس پاور میں نئے ابھرتے ہوئے رجحانات کے تناظر میں پاکستان کے لئے مواقع” کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ ایرو اسپیس پاور، اقتصادی، تجارتی اور سائنسی شعبوں میں وسیع پیمانے پر سول و عسکری مقاصد کے حصول کے لیے فضائی اور خلائی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی اہلیت کا نام ہے۔ پاکستان اس وقت خلائی تحقیق، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، بغیر پائلٹ کے فضائی نظام اور گرین ایویشن کی برقی ترسیل جیسے ابھرتے ہوئے رجحانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ سیمینار میں ایرو اسپیس پاور کے حوالے سے پاکستان کے لیے موجود مواقعوں پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی گئی۔ ائیر کموڈور(ریٹائرڈ) خالد اقبال، ڈائریکٹر نیشنل سیکیورٹی، سینٹر برائے ایرو اسپیس و سیکیورٹی سٹڈیز لاہور، نے اپنے تعارفی کلمات سے سیمینار کا آغاز کیا۔ انکی تقریر کے بعد میجر جنرل (ریٹائرڈ) احمد بلال، سابق چیئرمین اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے اہم خطاب کیا جس میں انہوں نے عالمی سطح پر ایرو اسپیس سے منسلک موجودہ رجحانات پر روشنی ڈالی۔ بعدازاں ڈاکٹر علی سروش، ایسوسی ایٹ پروفیسر ایئر یونیورسٹی، نے جنوبی ایشیاء میں خلائی طاقت کے ارتقاء پر توجہ مبذول کراتے ہوئے اسکے عسکری و سول شعبوں میں اطلاق کو اجاگر کیا۔ ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر احمد سعید منہاس نے بین الاقوامی خلائی قانون اور پاکستان کے خلائی پروگرام لیے قابلِ عمل ترقیاتی حکمت عملی کے مابین موجودہ خلا پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مہمان مقررین کے تبصروں کے بعد موضوع کو مزید وسعت دینے کے لیے ایک وسیع سوالات و جوابات کے سیشن کا بھی اہتمام کیا گیا۔ ایئر مارشل(ریٹائرڈ) عاصم سلیمان، صدر سینٹر برائے ایرو اسپیس و سیکیورٹی سٹڈیز لاہور نے اپنے اختتامی کلمات میں پاکستان کی قومی خلائی پالیسی میں تحقیق اور ترقی کے لیئے نجی شعبے کی شرکت داری کو ترجیح دینے اور تجارتی شعبے کی بھر پور شمولیت پر زور دیا۔ انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو خلائی ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر، صنعتی و تکنیکی صلاحیتوں اور انسانی وسائل پر توجہ مرکوز رکھنے کی سعی کرنی چاہیے۔ مزید براں انہوں نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ قومی سلامتی کی حکمت عملی خلا تک اس ملک کی رسائی کو برقرار رکھنے کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے اس پہلو پر بھی زور دیا کہ کسی بھی ملک کی عسکری حکمت عملی کے تعین کے لیے خلائی ٹیکنالوجی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ صدر سینٹر برائے ایرو اسپیس و سیکیورٹی سٹڈیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کو بہتر حاکمیت، مؤثر انتظامی امور، بھرپور ترقی اور سماجی بہبود کے لیے خلائی صلاحیتوں کو ملکی ڈھانچے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا چاہیئے۔
سیمینار کے اہم نکات مندرجہ ذیل تھے:
پیش کی گئی سہ نکاتی قومی حکمتِ عملی کو ملکی ترقی کے لیئے اختیار کیا جائے: سب سے پہلے، سماجی و اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کے لیے دستیاب ایرو اسپیس کے شعبہ سے منسلک صلاحیتوں اور وسائل کے بڑے پیمانے پر اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔ دوم: کم سےکم/قلیل مدت میں جہاں تک ممکن ہو خود کفیل ہونا یا خودانحصاری کو فروغ دینا، ایرو اسپیس کے وسیع سپیکٹرم میں پائی جانے والی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا۔ اور سوم: ایرو اسپیس سیکٹر کی متواتر ترویج کے لیے قومی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں مکمل ہم آہنگی پیدا کرنا۔ قومی خلائی پالیسی زمینی حقائق، قومی عزائم اور بین الاقوامی ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت پسندانہ مقاصد پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ عمل میں لایا گیا ایک ایسا ادارہ جاتی طریقہ کار ہو جو کہ ریاست اور تجارتی شعبہ کے زیر سایہ فروغ پانے والی سرگرمیوں کے مابین تعلق استوار کرکے قومی ترجیحات اور ریاستی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
بین الاقوامی سطح پر خلائی شعبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) میں تحقیق اور ترویج کی بدولت تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس کا مقصد نئے دور سے وابستہ صلاحیتوں کا حصول ہے۔ پاکستان کے خلائی پروگرام کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے قومی قیادت کے لیے اہداف کا تعین کرنا، وسائل مختص کرنا اور ایک قابلِ اعتماد انفراسٹرکچر تیار کرنا بہت ضروری ہے۔
قومی خلائی پالیسی کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ خلائی صلاحیتوں اور سول و عسکری دائرہ کار میں اسکے فروغ اور نفاز کے لیے ایک جزبہ نو کو ترویج دی جا سکے۔
ایرو اسپیس پروگرام کی کامیابی نہ صرف سماجی، اقتصادی اور قومی سلامتی کے شعبوں میں ایرو اسپیس ٹیکنالوجیز کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرنے سے منسلک ہے بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لیے قومی سطح پر کی جانے والی تمام تر کاوشوں کو ہم آہنگ رکھنا بھی انتہائی اہم ہے۔