ماسکو: کریملن کے اعلیٰ مشیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے میں “ناکافی طور پر باخبر” ہیں۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ “آگ سے کھیل رہے ہیں”۔
روسی صدر پیوٹن کے مشیر یوری اوشاکوف نے یہ ردعمل ٹرمپ کی ٹروتھ سوشل پوسٹ کے بعد دیا، جس میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا:
“پیوٹن کو یہ اندازہ نہیں کہ اگر میں نہ ہوتا تو روس کے ساتھ بہت ہی بُرا ہو چکا ہوتا، اور میرا مطلب ہے واقعی بہت بُرا۔ وہ آگ سے کھیل رہا ہے!”
سی این این کے مطابق ، یوری اوشاکوف، جو ماضی میں امریکہ میں روس کے سفیر رہ چکے ہیں اور اس سال کے آغاز میں سعودی عرب میں امریکی حکام سے مذاکرات کرنے والے روسی وفد کا حصہ بھی تھے، نے روسی سرکاری چینل “روسیا-1” سے گفتگو میں کہا:
“ٹرمپ بہت سی باتیں کہتے ہیں، ہم ان سب پر نظر رکھتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ روس-یوکرین تنازع کے تناظر میں زمینی حقائق سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہیں۔”
اوشاکوف نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ یوکرین کی جانب سے روسی شہروں پر “تواتر سے ہونے والے بڑے دہشتگرد حملوں” سے لاعلم ہیں، اور وہ صرف روس کے جوابی حملوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی اوشاکوف نے ماسکو کا پرانا دعویٰ دہرایا کہ روس صرف “فوجی انفراسٹرکچر اور جنگی صنعت” کو نشانہ بنا رہا ہے – حالانکہ یہ دعویٰ متعدد بار جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ کے بیانات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، تاہم اوشاکوف کے تبصرے کو سرکاری پالیسی کے قریب سمجھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، زمینی حقیقت یہ ہے کہ روس نے حالیہ دنوں میں یوکرینی شہروں پر شہری آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے تیز کر دیے ہیں۔ صرف پچھلے ہفتے کے دوران روسی ڈرون اور میزائل حملوں میں درجنوں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہفتے کے آخر میں ہونے والے ایک فضائی حملے میں کم از کم 14 شہری، جن میں ایک ہی خاندان کے تین بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے۔ 8 سالہ اسٹینسلاو مارٹینیوک، اس کی 12 سالہ بہن تمارا، اور 17 سالہ بھائی رومن کی آخری رسومات بدھ کو ان کے آبائی شہر کوروسٹی شیف (وسطی یوکرین) میں ادا کی گئیں، جہاں سینکڑوں سوگواران نے شرکت کی۔
تین سفید تابوتوں کو مقامی میوزک اسکول سے لایا گیا جہاں تینوں بچے زیر تعلیم تھے۔ اسکول نے ان کے اعزاز میں روایتی “آخری گھنٹی” بجائی – جو عموماً فارغ التحصیل طلبا کے لیے بجائی جاتی ہے۔
اس اندوہناک واقعے کے بعد ٹرمپ نے روسی صدر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:
“پیوٹن بالکل پاگل ہو چکا ہے! میں ہمیشہ اس کے ساتھ اچھے تعلقات میں رہا، لیکن اب اس کا ذہنی توازن خراب ہو چکا ہے۔ وہ بلاوجہ شہریوں کو مار رہا ہے۔”
یہ کشیدگی اُس وقت مزید بڑھی جب روس کے سابق صدر و وزیر اعظم، اور موجودہ سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ، دمتری میدویدیف نے ٹرمپ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا:
“میں صرف ایک واقعی بُری چیز جانتا ہوں — تیسری عالمی جنگ۔ امید ہے کہ ٹرمپ اسے سمجھتے ہوں گے!”
واضح رہے کہ میدویدیف روس کے صدر رہ چکے ہیں جب پیوٹن نے آئینی مدت پوری ہونے پر عارضی طور پر وزارت عظمیٰ سنبھالی تھی۔ بعد ازاں، روسی آئین میں تبدیلی کے بعد پیوٹن کے لیے تاحیات صدارت کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ میدویدیف اب زیادہ تر اپنے اشتعال انگیز سوشل میڈیا بیانات کے باعث جانے جاتے ہیں۔
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی برائے یوکرین و روس، کیتھ کیلاؤگ نے میدویدیف کے بیان کو “غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا:
“تیسری عالمی جنگ کا خوف پھیلانا انتہائی افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ امریکہ اب بھی روس کے سیز فائر کی تجویز کا منتظر ہے۔”