غیر قانونی سگریٹ کی تجارت میں ٹیکس چوری کا حجم 415 ارب روپے سالانہ ہے

بدھ کے روز اسلام آباد میں معاشی تھنک ٹینک پرائم انسٹی ٹیوٹ (PRIME) نے غیر قانونی تجارت کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد (TRACIT) کے تعاون سے، عالمی غیر قانونی تجارت انڈیکس 2025 اور پاکستان میں غیر قانونی تجارت کا مقابلہ کے تحت ایک ساختی اور پالیسی تجزیہ کا آغاز کیا۔اس تقریب میں اہم حکومتی، کاروباری اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔مقررین نے کہا کہ ملک میں غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔اس موقع پر TRACIT کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ غیرقانونی سگریٹ کی تجارت میں سالانہ 415 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔

افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی، وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے وزارت تجارت رانا احسان افضل خان نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اقدامات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا سمگلنگ کو روکنے اور شفافیت کو فروغ دینے کے لیے فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ سسٹم، فارماسیوٹیکلز، تمباکو مصنوعات اور پیٹرولیم میں ٹریک اینڈ ٹریس کی توسیع، سرحدی کسٹمز میں اضافہ، اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اصلاحات بشمول بینک گارنٹی اور اسکیننگ پروٹوکول کو بہتر کرنا ہے۔

اس موقع پر ۔TRACIT کے ڈائریکٹر جنرل، مسٹر جیفری پی ہارڈی نے ایک دستاویز پیش کی۔جس میں غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کے لیے عالمی حکمت عملیوں کا خاکہ پیش کیا اور پاکستان کے فعال اقدامات کی تعریف کی۔انہوں نے کہا دساویز پالیسی کارروائی کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرتی ہیں، جس سے پورے معاشرے کے نقطہ نظر کو فروغ ملتا ہے۔

تقریب کے دیگر مقررین نے کہا غیر قانونی تجارت کے لیے مضبوط مکالمے کی ضرورت ہے،جس سے تجارتی سالمیت کے لیے پاکستان کے عزم کو تقویت ملے گی۔تقریب کے دوران پرائم انسٹٹیوٹ اور TRACIT کی طرف سے غیر قانونی تجارت کے زریعے ٹیکس چوری کی نشان دہی کی گئی۔دونوں اداروں کی جاری کردی رپورٹس میں سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کو ٹیکس چوری کا سب سے بڑا زریعہ قرار دیا گیا۔سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے زریعے سالانہ 400 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری کی جاتی ہے۔

About The Author

اپنا تبصرہ لکھیں