عالمی یوم خواتین اور پاکستانی خواتین ” ایک جدوجہد، ایک پہچان

8 مارچ کو دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنا، ان کی جدوجہد کو تسلیم کرنا اور صنفی مساوات کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن نہ صرف خوشی بلکہ کئی تلخ حقیقتوں کی یاد دہانی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستانی خواتین نے تعلیم، سیاست، معاشی ترقی، اور انسانی حقوق کے میدان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن اب بھی انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔

1. سیاست میں خواتین کی نمائندگی اور ان کی کامیابیاں
پاکستان کی تاریخ میں کئی خواتین ایسی رہی ہیں جنہوں نے سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنیں اور مریم نواز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلی ، لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر ایک زندہ مثال ہیں انہوں نے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ، شرمین عبید چنائے، اور مختاراں مائی، شیریں مزاری، مریم اورنگزیب، حنا ربانی کھر اور دیگر کئی خواتین پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور قانون سازی میں کردار ادا کر رہی ہیں۔

2. تعلیم کے میدان میں کامیابی

اسلام میں علم حاصل کرنا مرد و عورت دونوں پر فرض ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔” (ابن ماجہ)
ملالہ یوسفزئی، جو خواتین کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر نوبیل انعام حاصل کرنے والی سب سے کم عمر لڑکی بنیں، پاکستانی خواتین کی تعلیمی جدوجہد کی ایک علامت ہیں۔ آج پاکستان میں کئی خواتین سائنس، ٹیکنالوجی، میڈیکل، اور دیگر شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔

3. معیشت میں خواتین کا کردار
پاکستان میں خواتین اب کاروبار، فری لانسنگ، اور اسٹارٹ اپس میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ کئی دیہی علاقوں میں خواتین گھریلو دستکاری، قالین بُنائی، اور دیگر کاموں کے ذریعے معاشی طور پر خودمختار ہو رہی ہیں۔

4. صنفی امتیاز اور ملازمت کے مواقع
اگرچہ خواتین کو ہر شعبے میں آگے بڑھنے کے مواقع مل رہے ہیں، لیکن کام کی جگہ پر ہراسانی، تنخواہوں میں عدم مساوات اور مواقع کی کمی جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔

2. گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادی
اسلام عورت کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “کسی عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔” (بخاری)
پاکستان میں گھریلو تشدد ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بہت سی خواتین اب بھی جسمانی، ذہنی اور معاشرتی دباؤ کا شکار ہیں۔ کم عمری کی شادی کا رجحان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں، بلکہ پاکستان میں ہزاروں، بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی حقیقت ہے۔، گھریلو تشدد، تعلیم کے فقدان

3. وراثتی حقوق اور قانونی رکاوٹیں
اسلام سے پہلے عورت کو وراثت میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا، لیکن اسلام نے اسے باقاعدہ حق دیا۔
قرآن میں ارشاد ہے: “مردوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں۔” (النساء: 7)
لیکن عملی طور پر بہت سی خواتین اپنے حقوق سے محروم رہتی ہیں۔ اکثر خواتین کو اپنی وراثت حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔

عورت مارچ اور خواتین کی آواز
اسلام میں خواتین کو عزت اور حیا کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہے: “اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔” (النور: 31)
ہر سال 8 مارچ کو “عورت مارچ” کے ذریعے خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ تاہم، اس پر کئی حلقوں میں بحث ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ کچھ اسے مغربی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین کا اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا ایک جمہوری حق ہے۔چند ایک خوتین کی وجہ سے .عورت مارچ کو غلط رنگ دے کر معاشرے کی دوسری ہونہار قابل خواتین کی ترقی کے راستے رکاوٹ رکاوٹ ہیں .

پاکستانی خواتین کا روشن مستقبل
اگرچہ چیلنجز موجود ہیں، لیکن پاکستانی خواتین اپنی محنت، ہمت اور جذبے سے ہر رکاوٹ کو عبور کر رہی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ، تعلیم، قانون سازی اور شعور میں اضافے سے خواتین کے مسائل میں بہتری آ رہی ہے۔

عالمی یوم خواتین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ عورت صرف ایک ماں، بہن، بیٹی یا بیوی نہیں، بلکہ ایک خودمختار اور مساوی انسان ہے جو اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو بہتر بنا سکتی ہے۔

نتیجہ
اسلام نے خواتین کو تمام بنیادی حقوق دیے ہیں، جیسے تعلیم، وراثت، شادی میں مرضی، اور عزت۔ عورت کا مقام ایک قیمتی موتی کی مانند ہے، جسے اسلام نے بہترین انداز میں محفوظ کیا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے مسائل کا حل صرف قانون سازی میں نہیں بلکہ عوام کی سوچ میں تبدیلی لانے میں ہے۔ جب تک لوگوں کی ذہنیت نہیں بدلے گی، تب تک صبا جیسی ہزاروں لڑکیاں اپنے خوابوں کی قربانی دیتی رہیں گی۔ خواتین کو برابری کا درجہ دینا صرف ایک ضرورت نہیں، بلکہ ایک قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا آج بھی ایک چیلنج ہے۔ دیہی علاقوں میں خاص طور پر لڑکیوں کے اسکول کم ہیں، اور جہاں اسکول موجود ہیں، وہاں اکثر لڑکیوں کو گھر کے کاموں میں مصروف کر کے تعلیم سے محروم کر دیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں