ویب ڈیسک .نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اتوار کے روز مسلم رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ صنفی تفریق کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم قرار دینے کی کوششوں کی حمایت کریں اور افغان طالبان کے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک پر کھل کر تنقید کریں۔
اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم پر ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں، جس میں بین الاقوامی رہنما اور اسکالرز شریک تھے، ملالہ نے کہا کہ مسلم رہنماؤں کو طالبان کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، جنہوں نے نوجوان لڑکیوں کو اسکول اور خواتین کو جامعات جانے سے روک دیا ہے۔
سی این این کے مطابق،”افغانستان میں ایک پوری نسل کی لڑکیوں کو ان کے مستقبل سے محروم کر دیا جائے گا۔ مسلم رہنماؤں کے لیے اب وقت ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور اپنی طاقت استعمال کریں۔”
طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان ثقافت اور اسلامی قانون کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم، طالبان انتظامیہ کے ترجمانوں نے ملالہ کے بیانات پر فوری تبصرہ نہیں کیا۔
کوئی غیر ملکی حکومت طالبان کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کرتی، اور سفارت کاروں نے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق پر پالیسی میں تبدیلی تسلیم کیے جانے کی شرط ہے۔
ملالہ، جنہیں 15 سال کی عمر میں پاکستان میں تعلیم کے لیے مہم چلانے پر گولی ماری گئی تھی، نے اسکالرز پر زور دیا کہ وہ طالبان کے جابرانہ قوانین کو کھل کر چیلنج کریں اور سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ صنفی تفریق کو انسانیت کے خلاف جرائم میں شامل کرنے کی حمایت کریں۔
یہ اجلاس اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام منعقد ہوا، جس میں مسلم اکثریتی ممالک کے درجنوں وزراء اور اسکالرز شریک تھے۔
پاکستان، جو حالیہ مہینوں میں افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا شکار ہے، نے اس اجلاس کی میزبانی کی۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغان سرزمین کو اس پر حملے کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی طالبان تردید کرتے ہیں۔