صنعتی طور پر پیدا ہونے والے مہلک ٹرانس فیٹی ایسڈز کو ختم کرنے کا مطالبہ اور شعور اجاگر کرنے کی فوری ضرورت ہے.حکومت مہلک صنعتی پیداوار کے خاتمے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرے.فوڈ سپلائی چین کے تمام ذرائع سے ٹرانس فیٹی ایسڈز کے خاتمے کو ممکن بنایا جائے۔
منگل کے روز اسلام آباد میں سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز کے زیر اہتمام
صحافیوں اور زرائع ابلاغ کے پیشہ سے وابستہ افراد کو غذا میں آئی ٹی ایف اے یعنی ٹرانس فیٹ ایسڈ کی موجودگی سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
میزبان غیر سرکاری تنظیم سی پی ڈی آئی کے ڈائریکٹر مختار احمد علی نے کہا
کہ قوانین اور عوامی صحت پر توجہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے پاکستان خطے میں ٹرانس فیٹ ایسڈ کے صارفین میں سب سے نمایاں ہے۔ جزوی طور پر ہائیڈروجنیٹڈ تیل ٹرانس فیٹ کا بڑا ذریعہ ہیں۔اس تیل کے استعمال کے باعث ہر ایک خوراک اس مہلک مادہ پر مشتمل ہے.انہوں نے کہا کسی ایک ضابطے کے تحت غذائی ذرائع سے آئی ٹی ایف اے کو محدود کرنا ہو گا۔اور اس مادے کو کل چکنائی کا 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
کنٹری لیڈ کے منور حسین نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے کھانے کے ذرائع کے حالیہ مطالعات اور مارکیٹ کے تجزیے نے ان مادوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیےاقدامات کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے جو عام طور تیار شدہ غذاوں میں پائے جاتے ہیں۔حالیہ تحقیق میں 2/3 برانڈز جن کا یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ حقیقی طور پر ٹرانس فیٹس سے پاک ہیں ان میں آئی ٹی ایف اے کی زیادہ مقدار موجود تھی۔اس کے علاوہ ٹی وائٹنرز، شارٹننگ، سٹریٹ فوڈز، تلی ہوئی اشیاء اور بیکری کی اشیاء اہم ہیں۔
اس موقع پر زرائع ابلاغ کے نمائندو نے ماضی میں ٹرانس فیٹ ایسڈ پر مبنی عذائی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان صنعتوں کی تشہیری مہم کو تنقید نشانہ بنایا۔انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ان صنعتوں نے اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے عوام کو سادہ اور مقامی خوراک سے مصنوعی غذاؤں کی طرف راغب کیا۔جس کے نتیجے میں معاشرے میں ٹرانس فیٹ ایسڈ پر مشتمل غذاوں کا کلچر ترتیب دیا گیا۔