پیپلز پارٹی کی طرف سے ن لیگ اور سنی اتحاد کی حکومتوں پر شدید تنقید

وفاقی حکومت نے بجٹ سازی کے مشورے میں پیپلز پارٹی کو شامل نہیں کیا۔ 11 جون منگل کے روز بجٹ سے قبل پیپلزپارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کا اجلاس بلایاگیا ہے۔جس کی صدارت بلاول زرداری کریں گے۔اجلاس میں بجٹ اجلاس سے متعلق مصوبہ بندی کی جائے گی۔ہفتہ کے روز پیپلز پارٹی کی مزکزی سیریکٹری اطلاعات شازیہ مری نے اراکین قومی اسمبلی سید حسین طارق اور ابرار شاہ کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس منعقد کی۔

شازیہ مری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی کوششوں کے نتیجے میں نیشنل اکنامک کونسل کا قیام گزشتہ روز ممکن بنا دیا گیا۔جو معیشت ملک بھر میں یکساں ترقی کے مواقع فراہم کرے گی۔نیشنل اکنامک کونسل کا پہلے قیام ہوتا تو بجٹ کی تیاری میں کونسل کی شمولیت ہوتی۔نیشنل اکنامک کونسل صوبوں کی حکومت کو ساتھ لے کر معاشی پلان تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے کہا بجٹ میں حکومت کی ترجیح عوام کو ریلیف دینا ہونا چاہئے۔مزدرو اور تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف دیا جانا چائیے ۔ بے جا سبسڈیز ختم کی جائیں اور غریب کے لیے سبسڈیز جاری کی جائیں۔وفاق نے یونیورسٹیوں کی فنڈنگ روک رکھی ہے۔ جس پر سندھ حکومت نے احتجاج کیا۔گزشتہ برس خیبر پختون خواہ حکومت نے یونیورسٹیوں کے لیےتین ارب روپے کا بجٹ مختص کیا۔اس طرح پنجاب نے 6 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا۔جبکہ سندھ حکومت نے 22 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا۔سندھ حکومت اس برس یونیورسٹیوں کے بجٹ میں اضافہ کر کے تیس ارب روپے کر رہی ہے۔

شازیہ مری نے کہا گرمی کی شدت کے باعث لوگ اذیت میں ہیں۔اور ملک بھر میں بجلی کی بندش کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ سندھ میں 20 گھنٹے بجلی بندش کا معمول ہے۔ہم تنقید نہیں کر رہے مگر حقیقت ہے کہ بجلی کا وزیر کہتا ہے کہ دس گھنٹے سے زائد کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی۔وزیر صاحب کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔سندھ میں بجلی کی وولٹیج اتنی کم ہے کہ اس پر بجلی کی چیزیں جل سکتی ہیں مگر چل نہیں سکتی۔عوام تڑپ رہے ہیں۔ بجلی کی پیدوار میں سندھ اپنا حصہ شامل کر رہا ہے۔وزیراعظم سے التجا ہے لوڈشیڈنگ پر سنجیدہ احکامات جاری کریں۔

سیکریٹری اطلاعات پیپلز پارٹی نے کہا کسانون کے مسائل پر بات کرونگی۔کسان تکلیف سے گزر رہا ہے ہمیں اس کا اداک ہے۔ہمارے سٹاک میں گندم موجود تھی پھر بھی گندم برآمد کی گئی۔دسمبر سے گندم آنا شروع ہوئی اور موجودہ حکومت کے دور مارچ تک گندم آتی رہی۔کسانوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ان پر تشدد کی نہیں۔کسان پاکستان کی معیشت کی ریڑ کی ہڈی ہے۔جہان کسان کو سپورٹ کیا جاتا ہے وہاں معیشت اور عوام خوشحال ہوتی ہے

انہوں نےکہا سنی اتحاد کے لوگ اپنے مقاصد کے لئے ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔اپ کہتے ہیں سیاسی لوگوں سے بات نہیں کریں گے۔اپ کو سیاسی لوگوں سے بات کرنے کی عادت ہی نہیں۔یہ لوگ جس طرح قومی اسمبلی میں تماشا کر رہے ہیں اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہےہمارے لوگوں کا کرسی مسئلہ نہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل پر اسمبلی میں بات ہو رہی ہے یا نہیں۔احتجاج کرنا حق ہے مگر احتجاج کے نام پر اسمبلی کی کاروائی کو روکا جارہا ہے۔

پختون کا کلچر احترام کا ہے مگر وہاں بیٹھا شخص لوگوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔میں طوفان بدتمیزی کے کلچر کی مذمت کرتی ہوں۔پشاور کے اندر 2017 سے ابھی تک ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم زیرمرمت ہے۔نصف قومی ٹیم کے پی کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔جبکہ وہاں پچھلے پندرہ برس سے صوبے میں کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔ اپنے صوبے میں لا اینڈ ارڈ پر کام کرو۔وزیراعلیٰ کے پی اس صوبے کی خدمت کرو جس کے تم بدقسمتی سے سربراہ ہو۔کے پی کی 31 یونیورسٹیز میں 26 کے وی سی ہی نہیں۔وزیراعلی کا لیڈر ان کو گالیاں دینا ہی سکھاتا ہے۔وزیراعلیٰ کے پی پر جنسی حراست کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا پی ٹی آئی اور کے پی کے لوگوں کی بدقسمتی ہے کہا ایسا وزیراعلیٰ ملا۔پی ٹی آئی کا سربراہ اج بھی کرسی کا پجاری ہے آج بھی اسٹبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنا چاہتا ہے۔نو تعینات شدہ گورنر کے پی کے حلف کے بعد صوبے میں نہ جانے کے سوال بر انہوں نے کہا صوبے کا چیف ایکزیٹو وزیراعلی ہے گورنر نہیں۔

شازیہ مری نے کہا اگر مسائل پر بات کی جائے تو یہ حکومت پر تنقید نہیں ہے ہم نے عوام کے مسائل کو اجاگر کیے۔پی ٹی آئی فرد واحد کیو جیل میں سہولیات کے لیے احتجاج کررہی ہے عوام کے لئے احتجاج نہیں کیا جا رہا۔

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی حسین طارق شاہ نے کہا ملک میں سالانہ گندم کی30 ملین ٹن کی ضرورت ہے۔جبکہ پاکستان کی 24 ملین ٹن کی پیداوار ہے۔نگران حکومت کو معلوم تھا کہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔ پھر بھی گندم امپورٹ کی۔ہم اس ملک کو کمیشن پر نہیں چھوڑ سکتے۔عوام کو ریلیف دینا حکومت کا کام ہے۔حکومت کا کام کمیٹی بنانا نہیں ایکشن لیا ہے۔ایک سیکرٹری کو معطل کرکے پھر کچھ دنوں پر کہیں اور تعینات کرنا عوام اور کسان کے ساتھ زیادتی ہے۔

انہوں نے کہا گندم کے موجودہ ریٹ پر کسان گندم فروخت کرکے بھی گندم کاشت کرنے کے اپنے خرچے بھی پورے نہیں کرسکتا۔اگر زراعت کے سیکٹرز کو چھوڑ دیں گے تو معاشی نقصان ہوگا۔حکومت کسان کو معیاری بیچ،جراشیم کشن ادویات فراہم کرے تاکہ اچھی گندم ہو۔کسان کے پاس موجود گندم کو اچھی قیمت پر خریدا جائے۔1991 سے اج تک سندھ کو پورا پانی نہیں دیا گیا۔بیچ لگانے یعنی بوائی کے وقت سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔بیچ لگانے کے وقت پورا پانی نہیں ملتا۔1991 کے معاملے کے تحت پانی تمام صوبوں کو دیا جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں