سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ کرنےکے مطالبے کے لیے پر اسرار مہم

تمباکو نوشی مضر صحت ہے۔تاہم دنیابھر میں تمباکو نوشی قانونی طورپرجرم ہرگز نہیں ہے۔جبکہ تمباکو کی پیداور، اس سے مختلف مصنوعات کی تیاری اور ان کا کاروبار بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی تصور نہیں کیا جاتا۔متعدد ممالک تمباکو کی مصنوعات سگریٹ وغیرہ برآمد کر کے زرمبادلہ بھی حاصل کررہے ہیں۔بلکہ تاریخ میں تمباکو کے کاروبار کو سونے کے کاروبار کی مثل بھی قرار دیا گیا ہے۔

ان دنوں ہمارے ملک میں سالانہ بجٹ کی تیاری کا مرحلہ درپیش پیش ہے۔وفاقی بجٹ کی تیاری کے موقع پر ملک بھر میں عمومی اور وفاقی دارالحکومت میں خصوصی طور پر پراسرار افراد و تنظیموں کی طرف سے مشکوک سرگرمیوں کے زریعے سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کے لیے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

اس مطالبے کے لیے کچھ اس طرح سے تانا بانا بنا گیا ہے کہ سگریٹ کے جائز کاروبار کا دفاع کرنے والے کو ہی مورد الزام بنا دیا جاتا ہے۔ تمباکو سے تیار کردہ نسوار، گٹکا، پان، برقی تمباکو کی مصنوعات اور دیگر کو صوبوں کی فوڈ اتھارٹیز نے مکمل طور پر بند کرنے کی سفارش کر رکھی ہے۔جبکہ سگریٹ کے علاوہ تمباکو سے تیار ہونے والی دیگر تمام مصنوعات ہمارے ٹیکس کے دائرہ کار سے بھی باہر ہیں۔ایک دو ممالک کے علاوہ ایسی تمام مصنوعات دنیا کے ہر ملک میں ممنوع قرار دی گئی ہیں۔ملک میں تیار ہونے والی قانونی طور پر سگریٹ سازی واحد تمباکو کی صنعت ہے جو باقاعدہ ٹیکس نافذ اور وصول کرنے والے اداروں کے قابو میں ہے۔اس بنا پر ہونا تو یہ چاہیۓ کہ سگریٹ کے علاوہ دیگر تمباکو مصنوعات کو ممنوع قرار دینے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی۔ یا کم از کم ان مصنوعات کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے مطالبات کیۓ جاتے۔ ان پراسرار سرگرمیوں کے زریعے پہلے سے ٹیکس کے نظام میں موجود سگریٹ انڈسٹری پر ٹیکس میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔پر اسرار مطالبے کے پیچھے کیا مقصد ہو سکتا ہے؟۔اس کا بغور جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔پاکستان میں سگریٹ سازی کی صنعت دو اہم شعبوں پر مشتمل ہے۔جن میں سے ایک جائز ٹیکس ادا کرنے والا شعبہ ہے جبکہ دوسرا غیر قانونی سگریٹ کی فروخت کا شعبہ ہے۔ جس میں مقامی ٹیکس چوری سے تیار کردہ سگریٹ، اسمگل شدہ سگریٹ اور جعلی سگریٹ شامل ہیں۔

اس وقت پاکستان میں سگریٹ سازی اور اس کی فروخت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور جی ایس ٹی کے تابع ہیں۔دستیاب معلومات کے مطابق مالی سال 2022/23 میں، حکومت پاکستان نے ٹائر-1 اور ٹائر 2 میں سگریٹ پر ایکسائز کی شرحوں میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا، جس کے نتیجے میں جائز اور قانونی طور پر سگریٹ کے کاروبار سے وابستہ صنعت اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہوئی۔قیمتوں میں اضافے کے باعث جائز اور ناجائز برانڈز کے درمیان قیمتوں میں واضح فرق نے قانونی اور جائز کاروبار کو مشکل تر بنا دیا۔جبکہ ٹیکس میں بے تحاشا اضافے کے نتیجے میں سگریٹ کے صارفین زیادہ قیمت والے قانونی طور پر جائز برانڈز سے غیر قانونی اور ٹیکس چوری شدہ برانڈز کی طرف منتقل ہو گئے۔ سگریٹ بنانے والی بڑی کمپنیوں کا کہنا ہے پاکستان میں سگریٹ پر نافذ ٹیکس خطے کے دوسرے ممالک کی بنسبت سب سے زیادہ ہیں۔

گزشتہ برس ٹیکس میں 200 فیصد کے اضافے کے نتیجے میں 23 جولائی سے 24 مارچ کے دوران پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے مطابق تمباکو کی جائز صنعت کے حجم میں پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 33.6 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔جائز صنعت کے حجم میں کمی نے ایکسائز کی شرح میں 200 فیصد اضافے کے باوجود حکومتی محصولات کی وصولی میں صرف 53 فیصد تک اضافہ ممکن ہو سکا۔ مالی سال 2023/24 کے لیے تمباکو کی صنعت سے کل ٹیکس ریونیو کا تخمینہ 265 ارب روپے لگایا گیا تھا۔جس کا 83فیصد سب سے بڑی سگریٹ ساز کمبنی سے وصول ہونے کی امید تھی۔پاکستان میں تمباکو کی صنعت کا تخمینہ 570 ارب روپے ہے۔جو موجودہ آمدنی کو پیش نظر رکھتے ہوۓ غور طلب ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے زریعے 300 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چوری کو ممکن بنایا گیا۔

بجٹ کی تیاری کے موقع پر پانچ غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کا گروہ انتہائی سرگرم پایاجاتا ہے۔ان این جی اوز کی طرف سے ہر ہفتے کہیں نہ کہیں سیمینار منعقد کیا جا رہا ہے۔این جی اوز کےاس گروہ کے پاس اس مہم کے لیے بھاری اخراجات کرنے کے عطیات کہاں سے آرہے ہیں ؟ یہ سوال ابھی حل طلب ہے۔جبکہ ان این جی اوز کا طریقہ یہ ہے کہ ہر سیمنار میں ایک تنظیم میزبان جبکہ دیگر چار تنظیمیں اس کی شراکت دار بن کر سٹیج پر براجمان ہوتی ہیں۔اس سے اگلے سیمینار میں میزبان کا کردار تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک این جی او کوچار سیمناروں کے بعد پھر سے میزبانی نصیب ہوپاتی ہے۔ ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ لیے ان این جی اوز کے ان سیمیناروں میں ہدف جائز اور قانونی سگریٹ ساز کمپنیاں ہوتی ہیں۔ ان غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے تمباکو سے ہونے والے صحت کے نقصانات کو ترجیح دی جاتی تو ان کے ہدف میں غیر قانونی سگریٹ ساز، گٹکا، نسوار برقی تمباکو نوشی اور دیگر اولین ہوتے۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔یہ مطالبہ کہیں نہ کہیں کوئی بڑی سازش یا مافیا کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔

ان این جی اوز میں سے ایک ہیومن ڈیویلپمنٹ فاونڈیشن کے سگریٹ ساز کمپنی کے مالکان میں سے ایک شخص سے عطیات وصول کرنے کا مبینہ انکشاف بھی ہو چکا ہے۔جبکہ اس این جی او کی تمباکو مخالف مہم کی دوسری شراکت دار بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنی والی تنظیم سپارک ہے۔سپارک کی طرف سے سگریٹ بر ٹیکس کے اضافے کے مطالبے کے لیے منعقدہ سیمینار میں شرکت کےموقع پر راقم نے سوال پوچھا کہ سگریٹ صارفین میں کتنے فیصد بچے موجود ہیں جن کے حقوق کے لیے سپارک سگریٹ پر ٹیکس میں اضافہ مانگ رہا ہے۔راقم کے سوال کے جواب میں سپارک نےبتایا کہ ان کےپاس کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔یعنی بچوں کے حقوق پر کام کرنے کی دعوے دار غیر سرکاری تنظیم بغیر کسی ڈیٹا کے سگریٹ سازی پر بے تحاشا ٹیکس کے نفاذ کا مطالبہ لے کر چڑھ دوڑی۔اسی طرح ان غیر سرکاری رفاعی تنظیموں کی طرف سے اپنے مطالبے کے حق میں بتائے گئے اعداد و شمار بھی یکطرفہ پائے گئے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت میں اہم شاہراوں پر سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کے مطالبات سے بھرے بینرز بھی آویزاں کیے گئے ہیں۔لاکھوں روپے مالیت خرچ کر کے لگائے گئے ان بینرز پر ان کے موجد یا خرچ کرنے والے کا نام اور شناخت تک موجود نہیں ہے۔یعنی یہ کوئی ایدھی فاونڈیشن سے بھی بڑا خدائی فوجدار ادرہ ہے جو اپنی ذات کو مخفی رکھ کر لاکھوں خرچ کیے جا رہا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے۔جب سی ڈی اے شعبہ ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن سے اس تشہیری مہم کے مالکان کی شناخت کے لیے رابطہ کیا گیا تو وہاں سنگاپور کی ایک کمپنی کا لیٹر ہیڈ پایا گیا۔جس کا اسلام آباد کا ایڈریس بھی مصدقہ نہیں تھا۔ان این جی اوز کو فرضی اعداد و شمار فراہم کرنے والی سروے کمپنیاں بھی غیر مصدقہ اور ان میں سے کچھ ملک میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ کرنے والی ان ہی این جی اوز کا دعوی ہے کہ ملک میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کل تجارت کے 38 فیصد پر مشتمل ہے۔ ان کے اس دعوے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ خالص نیک نیتی پر مبنی ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ کہیں نہ کہیں یہ غیر قانونی سگریٹ کی فروخت میں ملوث مافیا کے مفاد میں ضرور ہے۔اور ممکن طور پر یہ مافیا ایسی پر اسرار سرگرمیوں کے زریعے اپنے غیر قانونی کاروبار کے مزید فروع کے لیے سرگرم ہے۔چونکہ ہمارے ملک میں ان غیر قانونی سگریٹ سازوں اور سمگلنگ کے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کرنا یا ٹیکس کے نظام میں لانا ابھی ممکن نہیں ہو سکا۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور سوات جیسے علاقے ٹیکس کی وصولی کے اداروں سے قانونی طور پر کسی حد تک آزاد بھی ہیں۔ایسےمیں غیر قانونی سگریٹ بنانے والے اور سمگلنگ میں ملوث عناصر کے منافع کا حجم ناقابل یقین حد تک ذیادہ ہے۔یہی مافیا ممکن طور پر اس پر اسرار مہم سے مستفید ہو رہا ہے۔جس کے نتیجے میں ایک بڑی سگریث ساز کمپنی ملک میں اپنی مصنوعات کی تیاری بند کرنے کا عندیہ بھی دے چکی ہے۔یہاں قانونی طور پر سگریٹ کے کاروبار کرنے والوں کی وکالت کرنا ہر گز باعث شرم نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ قانونی کاروبار کرنے والوں کی رائے کو بجٹ تیاری کے موقع پر مشاورت میں شامل کرنے اور غیر قانونی کاروباریوں کا قلع قمع کرنے کا مطالبہ ہی مثبت ذہنیت کا عکاس ہونا چاہئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں