“تعلیم فریضہء کامل سے پیداواری تجارت تک”

“تعلیم فریضہء کامل سے پیداواری تجارت تک”

“تعلیم فریضہء کامل سے پیداواری تجارت تک”

پرائیویٹ سکولز انتظامیہ کی اجارہ داری!پشت پناہی کون کر رہا ہے؟.تعلیم اس کائنات میں انسان کی بنیادی ضرورت اور اصل شناخت ہے،جس کے بل بوتے پر ملک و قوم کی سلامتی اور ترقی ہے لیکن جب بیرونی طاقت کسی ملک کو مغلوب کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو وہ اس کے نظام تعلیم کو نشانہ بناتی ہے،سائنسی ترقی جدید دور کا سب سے بڑا معاشرتی تقاضا ہے، دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے اس دوڑ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن کامیاب ممالک نے اپنی پہچان معدوم ہونے سے بچانے کی خاطر اپنی زبان و ثقافت اور تہذیب و معاشرت کو محفوظ بنایا وہ یوں کہ قرینے سے نصاب تعلیم مرتب دئیے اور اپنی قومی زبان کو فروغ دیا تاکہ ان کی شناخت کسی بیرونی طاقت کے زیر تسلط نہ آ جائے، پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اپنے فکری و نظریاتی حوالوں کی بنیاد پر قائم ہوا تحریک آزادیء پاکستان میں جو کردار زبان ،ادب،علم اور صحافت کا رہا اسی نے منزل کا حصول ممکن بنایا ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر “ترقی” تو ہم نے بھی بہت کی ہے لیکن اپنی شناخت سے ہاتھ دھو بیٹھے، آئین پاکستان کے مطابق 5 سے 16 سال تک مفت تعلیمی سہولت میسر تھی اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے تو سہولت بھی ختم ہو گئی بعد ازاں 2015 میں معاہدہ ڈاکار میں پاکستان کی شمولیت کے بعد اب طلبہ کو تعلیمی سہولت فراہم کرنا بھی اہم ذمہ داری ہے

سرکاری سطح پر فنڈز کی کمی صرف طلبہ کی سہولت اورتعلیمی اصلاحات میں نظر آتی ہے باقی وزیر مشیر اور اعلا افسران ہر طرح کی سہولت سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں ،
ناخواندگی کے خاتمے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق تعلیم فراہم کرنے کے لیے 1990 میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رحجان بڑھا تو قیامت خیز تبدیلی وجود میں آئی، اساتذہ کو آسان روزگار فراہم ہوا اور طلبہ کو معیاری تعلیم،فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد وشمار کے مطابق 2000 سے 2008 تک 69فیصد پرائیویٹ سکولوں کا اجرا ہوا ان میں چھے ملین طلبہ نے داخلہ لیاجب کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں یہ شرح 8فیصد رہی صرف سال 2007 سے 2008 تک یہ شرح 34 فیصد بڑھی اور بارہ ملین طلبہ پرائیویٹ سیکٹر میں داخل ہوئےلیکن یہ تبدیلی بتدریج وبال جان بن گئی اور معاشرے پر قیامت ہی ڈھا گئی پرائیویٹ سکولوں نے اندھا دھند داخلوں کے باعث تعلیمی قابلیت اور معیار کا سودا کیا والدین پر بےجا اخراجات کا بوجھ ڈالا، اپنے مونوگرام والے یونیفارم، کاپیاں,کتابیں، سٹیشنری،مختلف تقریبات پر متنوع ملبوسات، تفریحی دوروں کے بھاری اخراجات، یوں تعلیم فریضہء کامل سے پیداواری تجارت بن گئی،پاکستان میں موجود 305763 پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں 311115دینی مدارس بھی ہیں، ان اداروں کا نصاب تعلیمی ادارے کےمالک کی من مرضی سے مرتب کیا جاتا ہے،جس میں انگریزی زبان کا غلبہ،جدیدیت کے نام پر مذہب سے دوری،اپنے مشاہیر کی روایات سے روگردانی اور جدید اسلامی نصاب معصوم ذہنوں کا حصہ بنایا جاتا ہے، سکولوں کی چکا چوند سے متاثر والدین بچے کے بہتر مستقبل کی خاطر انھیں ان اداروں کا حصہ بناتے ہیں بعض اوقات ان اخراجات سے نبرد آزما ہوتے ہوتےراستے ہی میں ہمت جواب دے جاتی ہے یوں بچے کا سلسلہ تعلیم منقطع بھی ہو جاتا ہے، ٹرانسپورٹ کے مہنگے کرایے بھی طلبہ کی غیر حاضری یا تعلیمی میدان میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں اساتذہ کا پرتشدد رویہ بچوں میں تعلیم سے دوری کا بڑا سبب ہے ان اداروں میں بہیمانہ تشدد کے واقعات منظر عام پر نہ لانے کے لیے ہر طرح کا ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے اور جنسی ذیادتی کے واقعات پر مکمل پردہ پوشی دیکھنے میں آئی ہے، جب کبھی کوئی گھناؤنا واقعہ منظر عام پر آیا ان اداروں کے ترجمان خاموش تماشائی بنے رہے منشیات کی ترسیل بیشتر پرائیویٹ سیکٹر میں ہوتی ہے، اور موسموں کی شدت میں بھی سکولوں کو کھلا رکھنے کے لیے حکمت عملی بنائی جاتی ہے نادار بچوں کی تعلیمی کفالت کے لیے فرضی معاہدات اور صحت کے احیا کے لیے رسمی خانہ پری کر کے معاہدات طے پاتے ہیں، چلچلاتی دھوپ ہو یا یخ بستہ سردی،پرائیویٹ سکولز کے طلبہ کی جان بخشی نہیں ہوتی ،اہل صحافت ہر موقع پر ان مافیاز کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں لیکن پرائیویٹ سکولوں کی تنظیمیں نجانے کس اثرو رسوخ کے تحت ہمیشہ اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتی ہیں خیبر پختونخواہ حکومت نے ان معاملات پر سختی سے نوٹس لیا اور پرائیویٹ سکولز کو بہتر لائحہ عمل اختیار کرنے کی جگہ ان پر ٹیکس لگانے کا حکم نامہ جاری کیا،جس کے مطابق پرائمری سکول(40ہزار)،مڈل(50ہزار) ،ہائی(1لاکھ)اور پرائیویٹ یونیورسٹی(اڑھائی لاکھ)تک ٹیکس دینے کی پابند ہو گئی
صوبائی وزیر تعلیم پنجاب نے صحافیوں کے پر امن احتجاجی واویلے کا جواب ہوا تو مکمل اطمینان ہوگیا کہ ہم پاکستان میں ہیں۔۔خبر پڑھئے:
“صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے پرائیویٹ سکولوں کو گرمی کی چھٹیوں میں سمر کیمپ لگانے اور پندرہ روز میں امتحانات مکمل کرانے کی مشروط اجازت دے دی،یکم جون سے پندرہ جولائی تک سمر کیمپ ہو گا،ایجوکیشن اتھارٹیز کو چھٹیوں میں پرائیویٹ سکولوں کے امتحانات میں مداخلت کرنے سے روک دیا گیا ہے،وزیر تعلیم نے پنجاب ایڈوائزری کونسل میں پرائیویٹ سکولز کے تین نمائندوں کی شمولیت کا بھی اعلان کیا جو وزیر اعلی کی سربراہی میں ایجوکیشن ریفارمز پر کام کرے گی”

لمحہ ء فکریہ ہے نظام تعلیم مسلسل نشانے پر ہے،رنگ برنگے نصاب ،معاشی استحصال سے لدھا نظام،ارباب اختیار کی ان عناصر پر کرم نوازیاں۔۔۔۔ تعلیمی انقلاب کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے “یکساں نظام تعلیم ” پر کیوں متفق نہیں؟ ثقافت مخالف تعلیمی اجارہ داری کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟کیا ملکی سلامتی میں تعلیم شامل نہیں؟

“تعلیم فریضہء کامل سے پیداواری تجارت تک”“ ایک

  1. مندرجہ بالا تحریر میں رائٹرز نے کچھ حقائق پر روشنی ڈالی ہے جبکہ کچھ باتیں حقائق کے خلاف بھی ہیں مثلاً 5 سے 16سال تک کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہے یہ 18ویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 25-اے ہے۔ یقیناً اس آئینی حق کو ہر بچے تک پہنچانے کے لئے ہم سب کو یک زبان ہونا پڑے گا ۔ اگر دھرنا دینا اور لانگ مارچ بھی کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے ۔
    دوسری بات نجی تعلیمی ادارے پاکستان بننے سے لیکر 1971تک حکومت کے ساتھ ملکر معیاری شرح خواندگی بڑھانے میں معاونت کرتے رہے۔ نجی تعلیمی اداروں کو قومی دھارے میں لینے کے بعد آئین کے آرٹیکل 37-بی پر عمل داری نا ہوسکی جس کے نتیجے میں 1984 کو دوبارہ پنجاب ، سندھ اور خیبرپختونخوا میں پرائیویٹ سکولز کے لئے قانون سازی کردی گئی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے آبادی میں اضافے کے پیش نظر نئے سکولز بنانا تو دور کی بات پہلے سے موجود سرکاری تعلیمی اداروں کو نجی شعبہ کے حوالے کرنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں بزنس ماڈل نجی شعبہ تعلیم فرنچائز کی شکل میں نمودار ہوا۔ اب تین طرح کے پاکستان میں پرائیویٹ سکولز چل رہے ہیں۔ 1- ایںلیٹ پرائیویٹ سکولز(جن کی ماہانہ فیس 15ہزار روپے سے زیادہ ہے)جوکہ کل نجی تعلیمی اداروں کاصرف 3سے 4فیصد ہیں۔
    2- بزنس/فرنچائز ماڈل پرائیویٹ سکولز(جن کی ماہانہ فیس 5ہزار سے 15ہزار روپے ماہانہ ہے)جوکہ کل پرائیویٹ اسکولز کا 10سے 12 فیصد ہیں۔
    3-کم آمدنی والے نجی تعلیمی ادارے(جن کی ماہانہ فیس 500روپے سے 5ہزارروپے ماہانہ ہے)جو کہ کل پرائیویٹ سکولز کا 80 سے 85فیصد ہیں.
    یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سرکاری وسائل سے چلنے والے تعلیمی اداروں کے بھی درجنوں طبقات ہے جہاں ریگولر بجٹ میں فی طالب علم ماہانہ میرے اور آپ کے ڈائریکٹ و ان ڈائریکٹ ٹیکس سے 5-10ہزار روپے ماہانہ اخراجات آرہے ہیں(ڈونرز کافنڈ،گرانٹس اور فارن ایجوکیشن قرض وغیرہ اس کے علاؤہ ہیں)۔

اپنا تبصرہ لکھیں