سستی بجلی کی پیداوار سے معیشت کو سہارا دینا ممکن ہے مصدق ملک

پاکستان انرجی سمپوزیم 2024 کا اسلام آباد میں منگل کے روز انعقاد کیا گیا.اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ 2500 ارب روپے کے گردشی قرضے سے معیشت دباو کا شکار ہے۔سستی بجلی کی پیداوار سے ہی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر پیٹرولیم و آبی وسائل سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے توانائی کے شعبے کی تشکیل نو کی فوری ضرورت پر روشنی ڈالی

انہوں۔نے کہا کہ گرمیوں میں ملک میں بجلی کی طلب 35 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے اور سردیوں میں 10 ہزار میگاواٹ تک گر جاتی ہے۔بجلی کی کم قیمتوں کے نتیجے میں زیادہ کیپسٹی چارجز ادا کرنے پڑتے ہیں، جس سے 2.50 ٹریلین روپے کا گردشی قرضہ پیدا ہوتا ہے، جو معیشت پر بوجھ ہے۔

مصدق ملک نے کہا پاکستان ایران سے گیس درآمد کرنا چاہتا ہے لیکن پابندیوں کے باعث مشکلات کا سامنا ہے اور دیگر ممالک کی طرح رعایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان غیرپیداواری کنوؤں سے شیل اور ٹائٹ گیس نکالنے کے لیے پالیسیاں بنارہا ہے۔

مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان میں سورج کی روشنی، ہوا، پانی اور جوہری توانائی موجود ہے۔ ہم بڑے پیمانے پر گرین انرجی پیدا کرسکتے ہیں۔ 2018 میں جب حکمت عملی بنائی جارہی تھی تو سولر انرجی 22 سینٹ اور ونڈ انرجی 23 سینٹ تھی، جسے اب کم کر کے 3 سے 5 سینٹ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان ہائبرڈ سسٹم کے ذریعے توانائی پیدا کرسکتا ہے۔ بیٹری ٹیکنالوجی بہتر ہورہی ہے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سورج، ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرسکیں گے۔

اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ریحان شیخ نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ پاکستان توانائی کی مستحکم فراہمی کے سفر میں ایک اہم موڑ پرکھڑا ہے۔ انرجی سیکیورٹی اور خود کفالت کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد یں ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کا توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں، طلب و رسد کے فرق، بڑھتی ہوئی لاگت اور ٹیرف جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ سال میں 300 سے زائد دن چمکتی دھوپ، سندھ اور بلوچستان میں وسیع ونڈ کوریڈوز اور شمال میں وافر ہائیڈرو پاور کے ساتھ پاکستان کو ان گرین انرجی کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور پائیدار توانائی مکس کی جانب بڑھنا چاہیے۔

شیل پاکستان لمیٹڈ کے سی ای او اور منیجنگ ڈائریکٹر وقار صدیقی نے پائیداری کے لیے فوری اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں توانائی کے مستقبل کو تشکیل کے لیے شراکت داری اور سلوشنز ضروری ہیں۔ تیل اور گیس کے لیے ون ونڈو آپریشنز، درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے تھر کے کوئلے اور قابل تجدید توانائی کا استعمال اور سولر پارکس کے لیے شمسی توانائی سے مالامال علاقوں کی نشاندہی کی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 1937 کے پیٹرولیم قوانین کو اَپ گریڈ کیا جائے اورغیرملکی زرمبادلہ کی قدر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے ساتھ شراکت داری کی جائے۔

کے۔الیکٹرک کے سی ای او مونس عبداللہ علوی نے پاکستان کے توانائی کے شعبے میں موجود مواقع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا انرجی مکس دنیا کے بہترین انرجی مکس میں سے ایک ہے، جس میں نیوکلیئر، ہائیڈرو الیکٹرک، سولر، ونڈ، درآمدی کوئلہ اور توانائی کے دیگر ذرائع شامل ہیں۔ بجلی کی ترسیل کے نظام میں خامیوں کو دور کرنے سے پیداواری لاگت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس وقت بجلی کے شعبے میں کیپسٹی چارجز تقریباً 16 روپے فی یونٹ ہیں۔ آپریشنل اور مینٹیننس کے اخراجات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ پاور ہولڈنگ لمیٹڈ چارجز گردشی قرضوں کی وجہ سے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں 25 سے 30 فیصد ٹیکس شامل ہیں، جس سے صنعتی اور رہائشی صارفین کے لیے بجلی بہت مہنگی ہو جاتی ہے۔ اگر کے۔ الیکٹرک اپنے پلانٹس کو پوری صلاحیت کے ساتھ چلاتی ہے تو کیپسٹی چارجز 16 روپے سے کم ہو کر 2 سے 2.5 روپے فی یونٹ پر آسکتے ہیں۔

نٹ شیل گروپ کی ڈائریکٹر رابعہ شعیب احمد نے کہا کہ جدت کو فروغ اور شراکت داری سے فائدہ اٹھا کر ہم مستحکم اور توانائی کی بچت کرنے والے پاکستان کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔سرمایہ کاروں کے مسائل کو اجاگر کرنے، سازگار سرمایہ کاری ماحول کا فروغ اور پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے صحت مند ماحول کی فراہمی کے لیے نٹ شیل گروپ ایک دہائی سے زائد عرصے سے او آئی سی سی آئی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں