اسلام آباد پولیس حراست میں ملزم کی ہلاکت مقتول کی تدفین سے قبل پولیس نے کیس دفن کر دیا

نو تعینات شدہ آئی جی اسلام آبادتھانہ ترنول کے ایس ایچ او کے خلاف پولیس کی حراست میں ملزم کی ہلاکت کا مقدمہ درج کروانے میں ناکام ہو گئے۔

گزشتہ روز تھانہ ترنول پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے کے واقعہ پر تاحال مقدمہ درج نہ ہو سکا۔پولیس زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ملزم کی ہلاکت پر ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے مقتول کے خلاف ہی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔

اس مقصد کے لیے پولیس کے تمام شعبے ایس ایچ او ترنول کی حمایت میں مصروف عمل ہیں۔متاثرہ شخص کی ہلاکت کے فوری بعد پولیس ترجمان نے بغیر کسی انکوائری کے نتائج کے ایس ایچ او ترنول کی حمایت میں ہلاک ہونے والے سلمان خان کو پولیس حراست سے فرار ہونے کے دوران ہلاک ہونے کا بیان جاری کیا تھا۔

پولیس زرائع کے مطابق ملزم کے خلاف پولیس حراست سے فرار کی کی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔جس کے نتیجے میں ملزم کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے سے ورثا کو محروم کر دیا گیا۔

ترنول کے رہائشی نقیب اللہ نے سی این این اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی۔ورنہ جان لینے کے بعد ملزم کے ورثا کو مقدمہ درج کروانے کا اختیار تو دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا میں الزام نہیں لگا رہا مگر یہ بھی تو ممکن ہے کہ سلمان خان کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہو۔ مگر یہ سب تو اس وقت سامنے آئے گا جب سلمان خان کی ہلاکت کا مقدمہ درج ہو گا۔

نقیب اللہ نے کہا جس ایس ایچ او کی تحوہل میں ایک سلمان خان ہلاک ہو سکتا ہے۔تو مقدمہ درج کروانے کی کوشش پر سلمان کے ورثا بھی پولیس کی تحویل میں لیے جاسکتے ہیں۔اس لیے پولیس حراست میں ہلاکت کا مقدمہ درج ہونا خارج از امکان ہی لگتا ہے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک پولیس اہلکار نے سی این این اردو کو بتایا کہ اس کیس میں ثابت ہو گیا کہ ایس ایچ او ترنول آئی جی سے زیادہ اثر رسوخ رکھتے ہیں۔

جب پولیس حراست میں موجود ملزم کو کٹے پھٹے گوشت اور ٹوٹی ہڈیوں کی شکل میں اسپتال لے جایا گیا تو اسی وقت تمام معاملات طے کر لیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا نو تعینات شدہ آئی جی اسلام آباد پولیس پر گرفت حاصل کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کے تمام اعلی حکام ایس ایچ او کو قتل اور تشدد کے مقدمہ سے بچانے کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔

ورنہ یہ کیسےممکن ہے کہ انکوائری کے نتائج آنے سے قبل ہی مقتول پر ایک اور الزام لگا دیا گیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس ایچ او کو بچانے کے لیے انکوئری کے نتائج انکوائری شروع ہونے قبل ہی طے کر لیے گئے ہیں۔

سی این این اردو نے تھانہ ترنول سے ملزم کی گرفتاری، پولیس حراست میں ہلاکت اور دیگر تمام تفصیلات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔تاہم تھانہ زرائع نے بتایا کہ ایس ایچ اور تفتیشی افسر افتخار نے ملزم کے مقدمہ اور ہلاکت سے متعلق تمام دستاویزات زیر زمین کر دی ہیں۔ جن تک رسائی ممکن نہیں ہے۔

جبکہ مسلسل 2 دن سے تفتیشی افسر افتخار اور ایس ایچ او سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ دونوں افسران تھانے میں موجود نہیں ہیں۔

تفتیشی افسر افتخار نے فون بات کرتے ہوئے ملزم کے خلاف درج مقدمہ اور دیگر تفصیلات پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔جبکہ تھانہ ایس ایچ او فون پر کال وصول کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں