پاکستان کو جرات مندانہ مالی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ڈائریکٹر ورلڈ بنک

ڈائریکٹر ورلڈبنک آرٹورو ہیریرانے کہاہے کہ پاکستان میں پائیدار مالیاتی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔بین الاقوامی تجربات کے نتائج کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے بنیاد کے طور پر ایک مستحکم اور پائیدار قرض کے سلسلے کے قیام کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے جہاں وہ یا تو پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے یا پھر قرضوں کی بدحالی کے بار بار آنے والے جال میں پھنس سکتا ہے۔

جمعرات کے روز اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے زیر اہتمام پائیدار مالیاتی اصلاحات پاکستان کے لیے بین الاقوامی تجربات کو لاگو کرنے کے موضوع پر ایک عوامی لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔جس میں ورلڈ بینک میں گورننس کے عالمی ڈائریکٹر آرٹورو ہیریرا گٹیریز نے خصوصی شرکت کی۔

ڈائریکٹر ورلڈ بنک نے کہا 1980 کی دہائی کے دوران میکسیکو جیسے ممالک کو درپیش معاشی مسائل کی تاریخ کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ان تجربات کی روشنی میں آج کے دور میں مالیاتی حکمت عملیوں کی تشکیل کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہیں۔

گٹیریز نے مالیاتی پالیسی میں نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط میکرو اکنامک فریم ورک، مضبوط قرضوں کے انتظام کے طریقوں، اور ادارہ جاتی انتظامات کے قیام کی ضرورت کا خاکہ پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔صرف سالانہ بجٹ میں توازن رکھنا ہدف نہیں ہونا چاہیے۔ ان اقدامات سے ساکھ بڑھانے اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو محفوظ بنایا جانا ممکن ہے۔

ورلڈ بینکر نے کہا کہ ماضی کے معاشی مسائل سے بچنے کے لیے وقت کے ساتھ تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت بھی ضرورت ہے۔عالمی سطح پر قرض کی پریشانی کے دوبارہ سر اٹھانے پر بھی توجہ دینی ہو گی۔

خاص طور پر کورونا کی وبا کے بعد، مالیاتی پائیداری کے طریقوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اپنے خطاب میں انہوں نے مجموعی عوامی قرضوں کے مسائل والے ممالک کا ذکر کرتے ہوئے کہا خاص طور پر، امریکہ، کینیڈا، جاپان، اور پاکستان جیسے ممالک، جن کا قرض سے جی ڈی پی کا تناسب 75 فیصد سے زیادہ ہے۔

جاپان، جی ڈی پی کے 252% کے قرضے کے تناسب اور 0.88% کی کم شرح سود کے ساتھ، یونان کے ساتھ تیزی سے متصادم ہے، جسے 168% کے کم قرضے کے تناسب کے باوجود 3.55% کی بلند شرح سود کا سامنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرض سے جی ڈی پی کا تناسب اہم ہے، لیکن معیشت کی پائیداری بھی مارکیٹ کو ایک اہم اشارہ دیتی ہے۔ جس سے شرح سود متاثر ہوتی ہے۔

گٹیریز نے کہا کہ دیکھنا ہو گا دنیا بھر میں پائیدار مالیاتی پالیسیوں کا جائزہ لیں کہ خاص کہ ان حکمت عملیوں کو پاکستان کے معاشی تناظر میں کس طرح ڈھالا جا سکتا ہے۔

تقریب میں پائیڈ نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کی معاشی پریشانیاں سادہ اکاؤنٹنگ اقدامات سے بالاتر ہیں۔یہاں سطحی اصلاحات کے بجائے جامع شفایابی کی ضرورت ہے ۔ ترقی کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے مرکز میں رکھتے ہوئے محض محصولات کے حصول پر اقتصادی توسیع کو ترجیح دینی ہو گی۔اضافی ٹیکس عائد کرنے سے پہلے معیشت کو پھلنے پھولنے کی اجازت دینے ضرورت ہے۔

لین دین کو آسان بنانے اور معاشی سرگرمیوں کو تحریک دینے کے لیے دوبارہ ضوابط طے کرنا ہوں گے۔جس کے نتیجے میں بالآخر ڈیفالٹ کے لحاظ سے بہتر آمدنی پیدا کرنا ممکن ہو پائے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں