اسلام آباد، پاکستان کا سب سے بڑا کارپوریٹ ایونٹ لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ (ایل آئی آئی بی ایس) کا ساتواں ایڈیشن اسلام آباد میں ختم ہوگیا ہے۔ ”ترقی کے لیے تعاون“ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سمٹ میں ملکی اور غیرملکی مندوبین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ایل آئی آئی بی ایس 2024 کی میزبانی نٹ شیل گروپ اور یونٹی فوڈز نے کی، جس کے لیے انہیں اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کا تعاون حاصل تھا۔ فیصل بینک لمیٹڈ پلاٹینیم پارٹنر اور انفرا ضامن پاکستان اسٹریٹجک پارٹنر تھے۔
سمٹ کے دوسرے خطاب کرتے ہوئے ائیر چیف مارشل سہیل امان (ریٹائرڈ)، پاکستان کے چیف آف ائیر اسٹاف (2015-2018) نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تقریباً 110 ارب امریکی ڈالرز کے اخراجات آئے،ان اخراجات سے نہ صرف پاکستانی معیشت پر دباؤ بڑھا بلکہ ترقی اور سماجی واقتصادی استحکام پر بھی طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے۔معاشی ترقی کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ نجی کاروبار اور انٹرپرائزز معاشی ترقی، ملازمتوں کے مواقع کی فراہمی اور جدت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار کرسکتے ہیں۔حکومت اور نجی شعبے کی مشترکہ کوششوں سے نئے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں، سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاسکتا ہے اور ملکی معیشت کو درپیش اہم چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بدل رہی ہے۔ یہ دور جغرافیائی سیاست کا نہیں بلکہ جیو اکنامکس کا ہے، جس میں معیشت کا کردار کلیدی ہے۔رہنماؤں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کی کوششوں اور کامیابیوں کو سراہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ پیٹھ پر دی گئی ہلکی سی تھپکی لوگوں کو بہترین کارکردگی دکھانے اور غیرمعمولی نتائج دینے پر ابھارتی ہے۔ اپنی ٹیم کے ممبران کو ترقی دے کر اور انہیں بااختیار بنا کر ہم ایسا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر ایک کو بہترین کارکردگی دکھانے اور اپنی صلاحیتوں کا پوری طرح مظاہرہ کرنے کی ترغیب ملے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومتوں اور کاروباری اداروں کے درمیان تعلقات اور تعاون کی احتیاط سے جانچ پڑتال اور ممکنہ طور پر تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ اس طرح کا ازسرنو جائزہ تعاون بڑھانے، باہمی افہام تفہیم کو فروغ دینے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے۔زراعت اور ٹیکنالوجی ملک کی ترقی کے اہم ستون ہیں، جو ہماری غیر متزلزل توجہ کے متقاضی ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانا بہت ضروری ہے کیونکہ ان کی شراکت افسوسناک حد تک کم صرف 20 فیصد ہے۔ اس عدم مساوات کو ختم کرنا صرف ایک مقصد نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ہمیں تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، کیونکہ یہ بااختیار بنانے اور سماجی ترقی کی بنیاد ہیں۔ چیلنجز کے باوجود میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پُر امید ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم خدا کے فضل سے کامیابی کے لیے تیار ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا نظام بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فرسودہ نظام تعلیم ترک کرکے بہترین عالمی طریقوں کو اپنایا جائے۔ تفریح پر مبنی تعلیمی سرگرمیوں کے لیے گیمفیکشن، ڈیجیٹل سمیت تمام سہولتیں فراہم کی جائیں۔ دنیا بھر میں تعلیمی نظام بدل چکا ہے، اب لوگ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جنریٹواے آئی کے لیے پڑھانے کے طریقوں کو بہتربنانا ہوگا۔ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے 55 ملین بچے پاکستان کا اثاثہ ہیں، ہمیں ان کے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ گروپ چیف بزنس سلوشن آفیسر، پی ٹی سی ایل گروپ ضرار ہاشم خان نے کہا کہ 1947 سے 1975 تک پی ٹی سی ایل سمیت تمام ادارے ترقی کررہے تھے، تاہم 80 کی دہائی میں پاکستان پیچھے رہ گیا۔ آج پاکستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ انٹرنیٹ نے پی ٹی سی ایل کو متاثر کیا ہے۔اسمارٹ فونز کی وجہ سے بچوں کا والدین اور بہن بھائیوں سے تعلق ختم ہورہا ہے۔ کامیاب معاشرے وہ ہیں جہاں ذرائع ابلاغ کی دستیابی ہے۔پاکستان میں انٹرنیٹ پر کلاؤڈ خدمات بہت کم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بعد سافٹ ویئر کی تیاری اور برآمدات میں بڑی تبدیلی آئے گی۔سی ای او، این بی پی فنڈڈاکٹر امجد وحید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانچ کروڑ بچوں میں سے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ اسکول جانے والے بچوں میں ڈیڑھ کروڑ سرکاری اسکول جاتے ہیں جہاں وہ اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔پاکستان اپنے عوام کو بنیادی شہری سہولتیں دینے میں ناکام ہے۔ اگر قانون کی عملداری اشرافیہ میں نہیں ہوگی تو عوام میں بھی نہیں ہوگی۔
کنٹری منیجنگ ڈائریکٹر، SAP، پاکستان، عراق، بحرین اور افغانستان ثاقب احمد نے کہا پاکستان جیسا ملک جہاں مذہب اور ثقافت کا کافی اثر و رسوخ ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال معاملات کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ ہم ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ جیسے جیسے رکاوٹیں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے ہماری قیادت کے کردار پر سوالیہ نشان لگتا جارہا ہے۔ منیجنگ ڈائریکٹر ایس اینڈ پی گلوبل، پاکستان مجیب ظہور نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹولز تک رسائی لوگوں کا حق ہے۔ آگاہی پیدا کرنے اور صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے اے آئی ٹولز لازمی جزو ہیں۔ ان صلاحیتوں کو ورک فلو میں شامل کرنے کی صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی ہم انفرادی اور ادارتی سطحوں پر پیداواری صلاحیت بڑھا سکتے ہیں۔چیئرمین اور سی ای او انٹریٹو گروپ آف کمپنیزڈاکٹر شاہد محمود کا کہنا تھا کہ اگلے 76 برسوں میں پاکستان کو ایک بالکل نئی نسل یعنی الفا جنریشن کے ساتھ منسلک ہونے کے چیلنج کا سامناہوگا۔ اس انوکھی تبدیلی کے لیے تعلیم، طرز حکمرانی اور سماجی اقدمات کے لیے جدید نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ڈائریکٹر، نٹ شیل کمیونی کیشنز، عثمان یوسف نے کہا کہ بعض اوقات میں ہم مثبت تبدیلی پر کم اور منفی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہم سب کے الگ الگ مسائل ہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں اپنا کردار بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنی برادری اور اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ کاروبار منافع کمانے اور زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب آپ اپنے کیریئر کو ترقی دے رہے ہوتے ہیں اور پوری توجہ کامیابی پر مرکوز ہوتی ہے تو اُس وقت منافع کا حصول پیچھے رہ جاتا ہے۔پارٹنر، اسپیکٹرو ایل ایل سی، یو ایس اے سجید اسلم نے کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، طوفانی بارشوں سے دبئی بھی نہیں بچا۔ امریکا اور یورپ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 680 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ یورپ میں یہ نقصان 330 ارب ڈالرز ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے گرمی، بارش اور سیلاب کی شدت بڑھ گئی ہے۔
چیف ایگزیکٹو آفیسر شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل ڈاکٹر ذیشان بن اسحاق کا کہنا تھا کہ چیلنجز مواقع لاتے ہیں۔ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے ٹیم ورک ضروری ہے۔ ٹیم ورک سے مستقبل کے پیچیدہ مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ہیڈ آف ریسرچ بزنس ریکارڈرعلی خضرنے کہا کہ گزشتہ 30 سال میں پاکستان کا میکرو اکنامک ماڈل بری طرح ناکام ہوا،پائیدار ترقی کے لیے ہمیں بوم اور بسٹ سائیکل سے دور جانا ہوگا۔ہماری محصولات کم اور گورننس ناقص ہے، معیشت کو ڈیجیٹلائز اور دستاویزی بناکر مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانے سے بچنے کے لیے معاشی اقدامات پر عملدرآمد کرنا پڑے گا۔چیئرمین محرم اینڈ پارٹنرزمصطفی ایچ محرم نے کہا کہ مصر اور پاکستان مشرق وسطی کا حصہ ہیں۔ ہمیں ایشیا سے ملانے کے لیے پاکستان ہی راستہ ہے۔ پاکستان اور ہماری ثقافت یکساں ہے۔ محرم اینڈ پارٹنرز نے پبلک پالیسی کمپنی بنائی۔ایسی کمپنیاں یورپ اور امریکا میں کام کرتی ہیں۔ یہ پہلی کمپنی تھی جو مصر میں بنائی گئی۔