کیا سب نیا ہے۔۔۔ (بہار)

نہ جانے کیوں یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ نئی چیزوں پر بے حد مسرور ہوتا ہے، جذبات میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے، کچھ جی اُچھلنے لگتا ہے، زندگی رنگین اور گل بہار محسوس ہونے لگتی ہے، طبعیت میں سستی کم ہو جاتی ہے، مانو بہار جیسے، کونپلیں سنورنے لگتی ہیں، ہر کلی کھلنے لگتی ہے، سبزہ زار ہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور مختلف رنگوں کے پھول آنکھوں میں سمانے لگتے ہیں، مانو نئی دنیا وجود میں آگئی ہو، ہر بھدی اور فرسودہ شے ڈھک دی جاتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خراب تھا ہی نہیں، جیسے ہر طرف آسودگی ازل سے تھی، مگر جیسے اس کے فوائد ہیں اسی طرح کئی نقصانات بھی ہیں، جیسے میں نے اوپر ذکر کیا کہ ہر فاسد، شکستہ و خستہ حال چیز مانو کالین کی تہہ میں چلی جاتی ہے، جسے ظاہر ہونے میں شاید پھر کئی سال لگ جائیں۔

اب بھی بہار کی آمد آمد ہے، ہر کلی پھوٹنے کو تیار ہے اور سونے پر سہاگا نئی حکومت بھی تشکیل پانے جارہی ہے، پنجاب میں نئی وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز اقتدار میں آچکی ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی نیا ہے کہ کوئی خاتون پاکستان کے کسی صوبے کی وزیر اعلیٰ بنی ہیں۔ کے پی میں علی امید گنڈاپور اپنے جوش کو ایوانوں کے مسند پر لے آئے ہیں، سندھ میں روایتی سیاست جارہی ہے شاہ صاحب تیسری بار میدان عمل میں ہیں، بلوچستان میں بگٹی صاحب اپنے خاندانی پس منظر کا دفاع کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔۔۔مگر ہے سب نیا (یا شاید لگ نیا رہا ہے)

اس کے ساتھ نئے عہدے ہیں،نئے وزراء ہیں، نئے دفتر ہیں، نئی کرسیاں ہیں، نئی گاڑیاں ہیں، نئی حکومتیں ہیں، نئی بھرتیاں ہیں، نئی شیروانیاں ہیں، نئے پیمان ہیں، نئی محفلیں ہیں، نئے چہرے ہیں، نئی رفاقتیں ہیں، نئی سینٹ ہوگی، نئے صدر ہونگے، سب نیا ہے مانو خدا کا فضل ہے کہ اتنے نئے منظر، بہار کے ساتھ ساتھ ابھر رہے ہیں کہ مزہ دوبالا ہوگیا ہے۔۔۔۔

مگر بات پھر وہی کونپل سے شروع ہوگی کہ سب نیا ہے یا نئی گھاس میں چھپ گیا ہے!!! یا کئی لاشیں پھولوں سے ڈھاپ دی گئی ہیں، کئی لٹیرے معزز ہوگئے ہیں، کئی نامعقول معقول قرار پائے ہیں، کئی وحشی شہری بن گئےہیں، کئی گندے دودھ سے پہنائے ہوئے ہیں، نئی شیروانیوں کے اندر کتنے پھٹے بنیان اور چیتھڑوں کے نشان ہیں!!! بس ہمیں تو میک زدہ تصویر سروس کر کے دکھائی جارہی ہے۔ بہار کا بھی یہی الم ہے کہ پتے، نئی شاخیں اور پھول دہائیوں سے بنے داغ، تنوں پر دراڑیں سب مبہم کر دیتے ہیں، اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم پھر چار، پانچ ماہ کیلئے خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں کہ جیسے مانو سب اچھا اور حسین ہوگیا ہے اور کبھی خراں کی پت جھڑ آئے گی ہی نہیں، خس وخاشاک ہم بھلا بیٹھتے ہیں۔۔۔۔

مگر جب خزاں سر پر منڈلانے لگتی ہے تو یاد آتا ہے کہ سفر زیست تو کار زیاں کی نظر ہوگیا ہم سوئے رہے، کھوئے رہے، یہی چکر ہر بار چلتا رہتا ہے، بس ہم موسموں کے محتاج رہ جاتے ہیں، اور سب دعاؤں صرف دعاؤں کے مرہون منت رہ جاتا ہے۔

کچھ یہی حالات اب پیدا ہوگئے ہیں، کہ حلقوں میں مسرت اور نئے دور کے اندیے، نئی امیدیں دلائی جا رہی ہیں۔ نئی گاڑیوں میں سوار، نئے ملبوسات میں تہے ہوئے، ہوئے نمائندے بغیر چھت کے عوام اور پھٹے پرانے ملبوسات میں لوگوں کی دھارس ہی بندھاتے رہیں گے یا عملی طور پر بھی کچھ اقدامات لیں گے۔

ہر دور میں نئی اسمبلیاں بنتی رہی، جہازوں پر سوار عوامی نمائندے ڈھو ڈھو کر لائے جاتے رہے، گلے میں کسی نے گلوبند باندھا تو کسی نے مفلر، چہروں پر خوشی دھکتی رہی، دوسری طرف بھوک، بے روزگاری، ظلم وستم پنپتا رہا، جب بہاریں جانے لگیں، کسی کو 2-58، B نے آ لیا، کسی کی لات کسی آمر نے کھینچی، کوئی سولی پر چڑھا دیا گیا، کسی کو خط نہ بچا سکا اور کوئی قازی کے قلم کی دھار نہ سہ سکا، کسی کو توہین عدالت پر جانا پڑا تو کسی کو بیرونی سازشوں نے آڑے ہاتھوں لیا، مگر تمام روداد ہے اس زمانے کی کہ جب سب نیا نہیں رہتا جب، کونپلیں خس وخاشاک ہو جاتی ہیں جب ہاتھ ضعف سے کانپنے لگتے ہیں، نئے موسموں کے انتظار اور تیاری بہار کے لیے مالی کی ضرورت پڑتی ہے تو یاد آتا ہے کہ ہم پچھلے موسم میں کیا نہ کر سکے، مالی بھی امید دلاتے ہیں کہ اب کی بار میں نے ٹھیک بیج لگایا ہے ٹھیک گھاد ڈالی گئی ہے، مگر مارکیٹ میں بیج وہی ہے مگر کمپنیوں/پارٹیوں کے نام بدلتے رہتے ہیں ورنہ اندر مواد وہی دقیانوسی ہے۔

اب کی بار، حسب روایت، یقینا یہی ستم دوہرایا جائے گا، نہ بجلی سستی ہوگی، نہ گیس دستیاب ہوگی، نہ تعلیم عام ہوگی، نہ روزگار مہیا کیا جائے گا، نہ لوٹ مار بند ہوگی، اور نہ ہی تھانہ کچہری میں کوئی کمی واقع ہوگی، ہاں ہوگا تو نمائندوں اور ان سے منسلک اشرافیہ کا بینک بیلنس توانا ہوگا، جیسے کہ اسے گھاد لگ گئی ہو باقی کچھ نہ ہوپائےگا۔
بال جبریل کی ایک نظم ساقی نامہ میں علامہ اقبال کا ایک شعر کچھ یوں ہے کہ:

پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میر و سلطان سے بیزار ہے

نئی شیروانیوں سے امید پرانی رکھنا شاید کسی عقل والے کا کام نہ ہو مگر اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے، کوچ وطن اس قدر آسان ہوتا تو دہائیوں پہلے یہ لوگ اس ریاست کو خدا حافظ کہ کر چلے گئے ہوتے، مگر پھر بھی یہ کہتا چلو امید پہ دنیا قائم ہے!!!! خدا کرے کوئی معجزہ ہو جائے اور اس ملک خداداد کی قسمت کی لکیر پر اٹی ہوئی دھول مٹ جائے۔۔۔۔


نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آرا مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔

اپنا تبصرہ لکھیں