جب ایک لکھنے والے کو یہ محسوس ہونے لگے کہ اس کے لکھے ہوئے الفاظ بے معنی ہیں، ان کی کوئی وقعت نہیں ہے، لوگ اب ہر دلیل و تاویل پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ ان کا اعتبار ہر اس چیز پر سے اٹھ چکا ہے جو کرنوں کی نوید سناتی ہے، جو سنہرے مستقبل کا پتہ دیتی ہے، اب تو ہر بات پر وہ دیوانہ وار ہنسنے لگتے ہیں کہ جیسے ان کو کوئی لطیفہ سنایا جارہا ہو۔ اسی طرح بولنے والی کے چہرے کے تاثرات بھی اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے جب وہ یہ محسوس کر لے کہ جو وہ بول رہا ہے اب اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی یا اس کی بات کو کوئی سننا ہی نہیں چاہتا یا اب قبا اس قدر چاک ہوچکی ہے کہ یہ بیان کرنا کہ سب ڈھکا ہوا ہے سراسر جھوٹ اور فریب کے عین مترادف ٹھہرتا ہے۔
کچھ یہی عالم میرا ہے یہ باتیں، ٹوٹے، بھولے بسرے الفاظ کو کاغذ پر مانو بے دلی سے انڈیل رہا ہوں، شاید واحد وجہ یہ ہے کہ اعتراف کیا جائے کہ آخر لوگ کالم، شالم کیوں پڑھتے ہیں اور اب کیوں نہ پڑھنا چاہیں گے۔۔۔
ایک طالب علم سے لے کر ایک بار اثر شخصیت ہونے تک اخبار کے کالم کو پڑھنے کی جو لذت ہے وہ ایک قاری ہی بیان کر سکتا ہے کہ کس طرح، ہر شعبہ زندگی سے ملحقہ جزیات پر کس طرح بات کی جاتی ہے، کیسے مختلف زاویوں سے بات کو پرکھا جاتا ہے، اور کس طرح اختتام پر ایک عمدہ راستہ یا اس سے جڑی ایک قلی کھلتی ہے یا پھر جو عام لوگوں کو نظر نہیں آرہا وہ باتوں کناروں میں کس طرح سمجھایا، بتلایا جاتا ہے مگر خاکم بدھن، نظام ایک بار پھر ایسا برہنہ ہوچکا ہے کہ کوئی مین میخ یا تانے بانے نکالنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے کہ کیا لکھا جائے!!! کیا امید دلائی جائے، یا راستہ یا نئی تجویز بتلائی جائے، بس من کرتا ہے مٹی پاؤ۔۔۔۔۔
آج سے گیارہ برس قبل 2013 میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوئی غیر سیاسی محرکات نے سیاست میں عملی طور پر دخل اندازی کی مگر کچھ بند قبا سے باہر ظاہر نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے حیا کا دامن سب پر برقرار رہا سوائے باریک بین آنکھوں کے، بات ہوتی رہی مسائل اٹھتے رہے ان کے حل تلاش ہوتے رہے، مکالمے کیے جاتے رہے، لڑائیاں لڑی گئی مگر کچھ شعلہ دم تھا!!! دھرنوں کی وجہ چار حلقے ٹھہرے، گلوں بٹ کی بدمعاشی ٹھہری، لاہور کی پولیس گری وجہ تنازع بنی مگر غیر سیاسی قوتیں جو ساری دنیا میں کام کرتی ہیں وہ بند کمرے میں بیٹھی دل کو بھا رہی تھیں مگر، اس کے بعد یک بعد دیگرے حالات بدلتے چلے گئے اور وہ تمام تر روحانی پیشوا کمروں سے نکل کر پردوں میں پیچھے آبیٹھے(پردہ بھی وہ جس میں یہ معلوم ہو کہ کوئی ہے مگر پہچان کرنا ممکن نہ ہو) تو اسی زمن میں وہ دھاک لگائے سب دیکھتے رہے مگر کچھ نہ بولے بس ہدایات برائے کرامات بذریعہ دم درود دیتے چلے گئے، اس کے بعد بھی حالات کچھ مایوسی والے نہ تھے سب اچھا نہ تھا مگر سب برا بھی نہ تھا، زندگی گل و گلزار نہ تھی مگر ہر گھڑی کسی کو اچک لیے جانے کا اندیشہ بھی نہ تھا، ہر گھڑی قیامت صغری کی قیافہ شناسی نہ فرمائی جاتی تھی مگر جو حال مردہ قوم کا اب کر دیا گیا ہے، اس کے بعد تو یوں مانئے کہ 17 برس قبل جو پیرھن اخلاق میں داخل ہوئے تھے وہ اور بے نقاب اور بد صورت ہوکر مانو واپس لوٹ آئے ہیں اب کی بار ان کی دہشت اتنی عام عوام پر تو نہیں ہے مگر ہیجان کافی زیادہ ہے۔۔۔۔
تمام شتر کھول دیے گئے ہیں، اب کہا جاسکتا ہے کہ تمام شتر بے مہار ہیں، سب مادر پدر آزاد ہیں کیونکہ ممی اور ڈیڈی تو بس وہی ہیں ساری قوم کے، اور نصیب دشمناں رادھا کو بھی نو من تیل مہیا کر دیا گیا ہے اب وہ اپنے کرشنا کے واسطے بڑی آب و تاب سے رقصاں ہے۔۔۔تو اب کیا لکھا جائے کیا بولا جائے دل کرتا ہے کالم شالم مٹی پاؤ۔
کالم تو امید دیتے ہیں، خبر دیتے ہیں، اظہار کرتے ہیں مگر اب یہاں کسی بات کی میری نظر میں ضرورت نہیں رہی اس لیے میں کہندا اعتراف کر لیا جائے کہ جو کوئی لکھ رہا ہے نہ لکھے نہ بولے، یہاں سب اندھے ہیں، اندھے بھی وہ جن کی آنکھوں میں سلاخیں مار دی گئی ہیں اور بہرے بھی وہ جن کے کانوں میں سیسا منوں من بھر دیا گیا ہے اب نہ جانے کیونکر کوئی کچھ پڑھنا چاہے گا یا سنسا چاہے گا۔۔۔۔
ووٹ طاقت ہے، ہاں اسی طاقت کو پچھلے کئی پہروں سے گلی گلی چوراہوں پر رسوا اور نیلام کیا جارہا ہے اور طاقت شرمندہ ہے کہ میں مغالطے میں رہی طاقت تو روحانیت میں ہے دنیاوی ٹھپوں سے افضل تو روحانی کراماتی ٹھپے ہیں، جو کسی قید گھڑیال کے پابند نہیں، زمان و مکان سے ماورا ہیں۔۔۔۔
بس اور لکھنا بے کار ہے، کالم شالم مٹی پاؤ۔۔۔۔۔۔
جاتے جاتے نوشی گیلانی کی جند ستریں شاید سفر کی رایگانی میں سکون دیں:
❝
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
اب اس کی مرضی
کہ وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو واہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پہ چلنے والوں
کی قسمتوں میں غبار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں
ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی رُتوں کو ناپائیدار لکھ دے
شجر کو کم سایہ دار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والوں
ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے ۔۔۔!!
نوٹ : اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء مصنف کے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ ادارے کے پالیسی یا پوزیشن کی عکاسی کریں۔