امریکہ میں سفیر پاکستان مسعود خان نے کہا ہے کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کا درد محسوس کرتے ہیں۔ ان کے زخم ہمارے زخم ہیں۔
انہوں نے یہ بات سفارت خانہ پاکستان واشنگٹن ڈی سی میں یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی بنیادوں کی کلید ہے۔ اسے ہم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے ملک کے قیام سے لے کر اب تک کشمیر کا مقدمہ لڑتے ہوئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
ہم یہ جنگ محض زمین کے ٹکڑے کے حصول کے لئے نہیں لڑ رہے بلکہ اس لیے لڑ رہے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ جنگ اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لیے لڑ رہے ہیں جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور عالمی برادری نے ان سے کیا تھا
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام روئے زمین پر سب سے زیادہ حق رائے دہی سے محروم لوگ ہیں۔ وہ نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسلی تطہیر کا شکار ہیں ۔
سفیر پاکستان نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں کشمیر انتہائی غیر مستحکم ہے جو علاقائی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔
مسعود خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے۔ ۔ میں آپ کی اجتماعی طاقت اور آپ کے ضمیر سے اپیل کرتا ہوں کہ بین الاقوامی قوتیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو بچانے کے لیے آگے آئیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی ناروے کے سابق رکن پارلیمنٹ لارس رائز نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے احتجاج کرنا چاہیے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ حق خودارادیت کا وعدہ نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بلکہ بھارتی وزیراعظم نہرو نے بھی کشمیریوں سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ 77 سال بعد بھی ہم اس حق کی عدم فراہمی کی بات کر رہے ہیں۔
پانچ اگست 2019 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے لارس رائز نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں بنیادی انسانی حقوق سلب کر دیے گئے ہیں اور مواصلاتی بندش ہے ۔ اس لیے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر گن پاؤڈر کی طرح ہے۔ یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے۔
ناروے کے سابق رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ عالمی برادری کو کشمیر کبھی فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
مسٹر رائز نے کہا کہ آئیں ہم اپنے وسائل کو اکٹھا کریں تاکہ عالمی برادری کشمیر کی آواز سن سکے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر امتیاز حسین نے اپنے خطاب میں کشمیر کی معصوم خواتین اور بچوں کے خلاف بھارتی افواج کے بہیمانہ جرائم پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تبدیلیاں کر رہا ہے اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر امتیاز نے نشاندہی کی کہ بھارت خطے کے ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے اور کشمیر کی جنت کشمیریوں کے لیے ایک زندہ جیل میں تبدیل ہو چکی ھے۔
انہوں نے مسئلہ کشمیر پر مسلم ممالک میں اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے دنیا کی معروف یونیورسٹیوں میں کشمیر چیئرز کے قیام کی تجویز دی۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں کہا کہ کشمیر کی صورتحال غزہ کے ساتھ موافق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت سرحد پار دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست کے طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہندوتوا ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ سینیٹر مشاہد سید نے کہا کہ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی حکومت کے مظالم کو اجاگر کر چکی ہیں۔ انہوں نے مقامی، بے ساختہ اور وسیع پیمانے پر جدوجہد میں ثابت قدم رہنے پر کشمیری عوام کی ہمت اور حوصلے کی تعریف کی۔
Part 2/2
جناب مواحد حسین سید، اٹارنی ایٹ لاء نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ’بااختیار ذہنیت‘ پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جو اس بات کا ادراک کر سکے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جارج فلائیڈ، بلیک لائیوز میٹر اور اسی طرح کے دیگر معاملات کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے سے اس حوالے سے سول سوسائٹی کو بیدار و فعال کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کے لیے ماحول سازگار ہے۔
مسٹر افضل خان، ممبر یو کے پارلیمنٹ نے اپنے ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ عالمی برادری بالخصوص برطانیہ سمیت بڑی طاقتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد کریں۔ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے کشمیر کے منصفانہ مقصد کے لیے اپنی حمایت جاری رکھنے اور کشمیری عوام کی حالت زار کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنے کا یقین دلایا۔
پاک امریکن کرسچن کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے مسٹر الیاس مسیح نے اپنے کلمات میں شرکاء پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کی حالت زار کے بارے میں سول سوسائٹی خصوصاً نوجوانوں میں شعور بیدار کریں۔
سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹیجک سٹڈیز آزاد جموں و کشمیر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ کشمیری گذشتہ 76 سالوں سے جبر کا شکار ہیں اس کے باوجود وہ پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 76 سال گزرنے کے بعد بھی بھارت کا وجود کشمیر میں ناجائز حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عاصمہ نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ غیر قانونی قبضے کا خاتمہ ہونا ہے اور ’’بھارت کو کشمیر کی سرزمین چھوڑنی ہوگی اور کشمیریوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ اپنے لیے کیا مستقبل چاہتے ہیں‘‘۔
کشمیر سیویٹاس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرحان مجاہد چک نے اپنے پیغام میں بھارتی مظالم کے بارے میں آگاہی بھیلانے کے حوالے سے پرعزم رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر بدستور پس پردہ ہے اور طویل عرصے سے نظر انداز کرنے والا تنازعہ ہے۔ “آیئے ،اس سال ہم ایک پختہ عہد کریں کہ ہم نوآبادیاتی پالیسیوں، مواصلاتی حکمت عملیوں، انسانی حقوق کی گھناؤنی خلاف ورزیوں اور جعلی مقابلوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کو قتل اور قید کرنے کے گھناؤنے طریقوں کے بارے میں عالمی شعور اجاگر کرنے کے لیے پر عزم رہیں گے۔.
مشیر صدر آزاد جموں و کشمیر سردار ظریف خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کشمیریوں کے جذبہ کو تقویت دیتا ہے ۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے پر حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کبھی دبا نہیں سکتا۔
چیئرمین کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز جناب الطاف وانی نے عالمی برادری کے سامنے حقائق پیش کرکے بھارتی حکومت کو بے نقاب کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
کشمیر پر معروف مصنفہ اور تاریخ دان محترمہ وکٹوریہ شوفیلڈ نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر تکلیف ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔